آزاد بن حیدر کراچی کے بڑے خیر خواہ تھے‘ احتشام الدین

334

نامور مسلم لیگی رہنما آزاد بن حیدر گزشتہ دنوں کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ 1960ء کی دہائی میں کراچی کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے علمبردار تھے۔ 1972ء میں مارشل لا کے پہلے چند قیدیوں میں آزاد بن حیدر بھی شامل تھے، ان کے علاوہ ڈاکٹر لائق اعظم ، ممتاز عالم ، محفوظ یار خان اور ممتاز جنیدی تھے۔ ان کا جرم بنگلا دیش سے محصور پاکستانیوں کی وطن واپسی کا مطالبہ تھا۔ وہ مرتے دم تک محصورمحب وطن پاکستانیوں کے زبردست حامی تھے۔
فرینڈز آف ہیومنٹی (ایف او ایچ) کے صدر اور مجلس محصورین پاکستان کے چیئرمین احتشام الدین ارشد نظامی نے نمایندہ جسارت سید مسرت خلیل سے شکاگو سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں انسانیت کی بے مثال حمایت پر آزاد بن حیدر کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آزاد بن حیدر کراچی کے بڑے خیر خواہ تھے۔ ماضی کی کچھ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے احتشام الدین ارشد نے بتایا کہ اپریل 1972ء کی بات ہے، ایکشن کمیٹی کا ایک کارکن علی الصبح گھر کی پچھلی دیوار پھلانگ کر اندر آیا اور مجھے نیند سے اٹھا کر کہا کہ جلدی چلیں- وہ اس قدر گھبرایا ہوا تھا کہ کچھ بتا نہیں پا رہا تھا۔ میں اس کی موٹر سائیکل پر سوار ہوگیا۔ راستے میں اس نے بتایا کہ لئیق اعظم اور ممتاز کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور میرے بھی وارنٹ ہیں۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ ابھی 3 دن پہلے ہی میری، لئیق، اظفر اور مجاہد کی صدر اور دوسرے دن گورنر ممتاز بھٹو سے ملاقاتیں بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی تھیں۔ ہم کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل پہنچ گئے۔ ہاکر اخبار لا رہا تھا، میں نے اخبار کی شہ سرخی دیکھی کہ لئیق اعظم، ممتاز عالم ،آزاد بن حیدر، ممتاز جنیدی اور محفوظ یار خان مارشل لا کے تحت گرفتار۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔
3 برس قبل میں بنگلا دیش ہوتا ہوا کراچی پہنچا تھا۔ حسن امام صدیقی نے پیغام پہنچایا کہ آزاد بن حیدر نے اپنے گھر کھانے پر بلایا ہے۔ میرے پاس وقت بالکل نہیں تھا مگر آزاد کو انکار ممکن نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ وہاں ممتاز عالم، آغا مسود حسین بھی موجود تھے۔ محفوظ یار خان بھی آنے والے تھے، مگر سیاسی مصروفیات آڑے آئیں، تاہم انہوں نے فون کر کے مجھ سے اور آزاد صاحب سے بات کی۔
آزاد بن حیدر سے میری پہلی ملاقات 1970ء کے آخر میں کراچی کے ایک مظاہرے میں ہوئی تھی، جو اُردو اور صوبے کے حوالے سے ہوا تھا- دوسری ملاقات اپریل 1971ء میں بندر روڈ پر واقع ان کے دفتر میں ہوئی تھی، جہاں ایک جلسہ تھا اور اس جلسے کے مہمان خصوصی مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے مہاجر رہنما دیوان وراثت تھے۔ پھر اس کے بعد تو آزاد صاحب سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور بے تکلفی بھی رہی۔ سب سے پہلے اس دنیا سے لئیق اعظم گئے، پھر ممتاز جنیدی اور اب آزاد صاحب چلے گئے۔