نجات کا مہینہ

229

صبا احمد
مغفرت، رحمت،برکت اور جہنم سے نجات کا مہینہ رمضان کی آمد ہے ۔جو موقع دن یاتہوار جتنا زیادہ اہم ہوتا ہے ۔اسى قدر اس کے استقبال کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
ماہ صیام ہم پر سایہ فگن ہو رہا ہے، نعمتوں کے سمیٹنے کا مہینہ ہے ۔یہ رمضان ہمارے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ پوری دنیا میں کرونا وائرس کی وبا جو چھوت کی طرح پھیلی ہے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہے۔ ایک لاکھ بہتر ہزار سے زائد لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں ۔
اللہ جب اپنی امت پر مہربان ہوتا ہے تو رمضان کا مہینہ بھیجتا ہے ہم اپنے رب کى مہربانی کا جتنا بھی شکر اداکریں وہ کم ہے ۔ ہم پر یہ وبا اس وقت آئى جب رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیاں قریب ہیں ، شکر ادا کرننے کا موقع ہے ۔ذیادہ سے زیادہ استغفار کریں، راتوں کو تہجد کا اہتمام کریں،سجدیں میں گڑ گڑائیں معافی طلب کریں ۔
اسے منائیں بیشک اللہ ہمیں ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے ہم چل کر اس کے پاس جاتے ہیں تو وہ دوڑ کر ہمارے پاس آتا ہے ۔وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔
”مومن کا دل اللہ کا مقام ہے ۔“ اللہ اس کے دل میں رہتا ہے ۔
صحابہ رضوان اللہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ ماہ شعبان سے ہی رمضان کی تیاریاں شروع کردیتے تھے ،زیادہ صدقہ خیرات کرتے ۔
حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے ۔کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
”اے لوگوں تمہارے پاس عظمت وبرکت والا مہینہ آیا ہے وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور اس کے روزے الله تعالیٰ نے فرض کیے اور اس کی رات میں قیام کرنانفل قرار دیا ہے۔جو اس میں نیکی کا کوئى کام یعنی نفل عبادت کرے تو وہ ایساہے جیسے اور دنوں میں ٧٠ فرض ادا کیے۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، یہ غم خواری کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔
حدیث ہے کہ ”روزہ گناہوں سے ڈھال ھے اور گناہوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو “ ۔
اللہ فرماتا ہے ”روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا ۔“
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہيں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہيں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں ۔“
گزشتہ چند سالوں سے ہم رمضان کووہ اہمیت نہیں دے رہے، جو دینی چاہیے ۔غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ زیادہ وقت موبائل کے استعمال میں ان سعاعتوں کو ضائع کر رہے ہیں ۔روزے کی حالت میں اور رات گئے سحری اور افطار کی ٹى وى نشریات میں محو ہو کر نمازیں اور تراویح، تہجدپس پشت ڈال چکے تھے ۔انعامات کے شو میں گدھا گھوڑا بننے اور بےہودہ حرکات کرنے پر بھی بخوشى راضى ہوجاتے ہیں مگر اس ماہ کے فیضان اور فضیلت کو سمجھنا چھوڑ دیا کہ يہ مہينہ ہمارے نفس اور کردار کو سنوارنے کی تربیت گاہ ہے دلوں کو کیسے جھوٹ،دھوکہ، فریب ، کینہ ،بغض ،حسد اور شرک سے پاک کرنا ہے ۔اسی لیےشايد اللہ تعالی ہم سے ناراض ھو گیا ھم نے نافرمانیوں کی ایک لمبی قطار بنالی تھی ۔اللہ نے ہماری رسی دراز کردی تھی ۔اب کرونا وائرس کی وبا سے ہمیں بتایا کہ وہ ﷻ کا غضب کتنا شدید ہوسکتا ہے ۔
مسجدوں میں اذانیں ہورہی تھی مگر نمازیوں کی صفیں کم تھیں ہم دوسرے مشاغل میں مصروف رہتے ۔حیا اور ایمان کی اہمت کیا ہے۔ نماز دین کا ستون ہے اور روزہ تقوی بااللہ سکھاتا ہے ۔جسموں جان کی زکواۃ اور مال کو صاف کرتا ہے ۔خدا کو آپ کی بھوک یا پیاس درکار نہیں بلکہ ہمارى پرہیز گاری اور تقوی بااللہ درکار ہوتی ہے ۔ذات بارے تعالى انتظار میں ہوتى ہے کون بندہ اپنے نفس کو مار کر نیند کی پرواہ کیے بغیر اٹھتا ہےرب کو راضی کرنی کے لیے اپنے آنسو کو لڑیاں بہاتا ہے،معافی مانگتا ہے،جنت کو طلب کرتا ہے ، جہنم سے نجات مانگتا ہے ،اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لئے سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے ۔
وہ رب العالمین بھی اپنی رحمت کی بارش برسانے کے لیے بے چین ہوتا ہے کہ کوئى مانگے اور وہ اسے اپنے نور سے منور کررے- اس کی زندگی اس دودھیا چاندنی سے سراپا نہا جاتی ہے ۔وہ نیت کی مراد پاتا ہے اور جو سویا اس نے گويا کھودیا ۔
رمضان میں بجائے اس کے کہ ہم اپنے مسلم بھائيوں کے لے اشیائے خوردونوش سستى ہوں ،لوگوں کے لئے آسانی کا سامان بنيںہم اسکے برعکس چیزیں مہنگی کر دی جاتی ہیں ، جوعام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتى ہیں اور وہ محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
رمضان ایک اسلامی تہوار کى طرح ہے،لندن میں پاکستانی مارٹس پر اشیاء مہنگی تھی جبکہ وہاں کی مقامی گوروں نے ڈیری اور دوسری اشیاء رمضان کے لیے سستی کردیں ۔وہاں کی حکومت نے ان کے خلاف ایکشن لیا ،جرمانہ عائد کیاافسوس کی بات ہے کہ دیار غیر میں ہم نیے بحثیت مسلمان کیا مثال پیش کی تو سزا تو بنتى ہے ۔
پاکستانی حکومت نے بھى مہنگائى اور ذخیرہ اندوزی کرنے کےلیے اس رمضان میں سخت سزائیں مقرر کی ہیں ۔مزدور طبقے کو احساس پروگرام اور دوسرے فلاحی ادارے رمضان پیکج، کیش اور راشن دے رہے ہیں ۔اس میں بھی راشن کی تقسیم میں اپنی حقدار بھائيوں کا حق مارا جارہا ہے۔ جھوٹ اور دھوکہ دہی جيسے ناسور ہمارے معاشرے میں سراعيت کرچکے ہیں۔
ہم پر پروردگار نے اپنا اور نبی ﷺ کے در بنر کرديا
اور بتایا کہ” مجھ سے دوری کا غم کیسا ہے؟؟۔اسی طرح مسجديں بے رونق تھيں تو مجھہ پر کیا گزرتی تھی؟؟ میں تو اپنے بندوں کی بھلائى ہی چاہتا ہوں ۔ آج تم بیمار ہو ، اپنے گھروں میں محسور ہوئے میرے بندے آٹھ ماہ سے بند تھے تم میں سے کسی کو ان کے دکھوں اور تکلیف کا احساس نہ ہوا نتیجتاً تم پر زندگی تنگ کردی. تبھی ساری دنیا لاک ڈائون کر دی گئى _اب رمضان آنے والا ھے ۔اب تم مسجدوں اور روزوں اور مجھ سے اور نبی ﷺسے ملنے کے لیے تڑپ رہے ہو ، مجھ تک راستہ میرے بندوں سے ہو کر جاتا ہے ۔کیا تم یہ بھول گئے تھے ؟؟یہ بھائى چارے کامہینہ ہے،ایک دوسرے کا دکھ باٹنے،زکواۃ دے کر مال صاف کرنے تاکہ ھمارے کمزور بہن بھائی کی مدد ہوسکے ۔
نبی ﷺ نے فرمایا ” رمضان شہر مواخات ہے ۔یہ امت مسلمہ سے ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے ۔“
آئيں ماہ مبارک میں خدا تعالى کى مخلوق کے حقوق کى پاسدارى کى تربیت کريں تاکہ اس کے بند در ہم پر کھل سکيں.(آمين)