لاک ڈاؤن اور ورکنگ ویمن کی پریشانیاں

509

قرطاس
فرح مصباح
پچھلے دنوں کسی کام سے نکلنا ہوا تو کچھ چہرے پر اداسی اور یاسیت کی ایسی تصویر دیکھی ہیں کہ جنہیں بھلانا ناممکن ہو گیا ہے
کچھ ایسی خواتین سے ملاقات کرنے کا اتفاق ہوا جو ملازمت پیشہ تھی ایک خوف تو انہیں اپنی تنخواہ نہ ملنے کا تھا اور دوسرا خوف جو ان کے سر پر سوار تھا وہ نوکری چھوٹ جانے کا
اسی ضمن میں قلم اٹھایا اور کچھ گزارشات اور باتیں عوام کی نذر کرنے کا سوچا۔
جب کورونا نے اپنے طور پر شدت اختیار کرنا شروع کی تو دنیا لوک ڈاؤن کی صورت میں مقید ہونے لگی۔
چائنا اور اٹلی کی خوفناک صورتحال سے گھبراتے ہوئے حکومتوں نے دنیا بھر میں اپنے ملکوں میں لوک ڈاوُن کی تجاویز پیش کیں۔
ویسے تو اس لوک ڈاؤن کی وجہ سے سبھی لوگ بری طرح سے متاثر ہوئے لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جس پر ہماری توجہ کم ہی مرکوز ہوتی ہے ،اور وہ ہے ملازمت پیشہ خواتین کا طبقہ۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کا 20فیصدطبقہ ملازمت پیشہ ہے۔
اس طبقے کی بھی بہت کیٹگریز ہیں ۔پہلی تو وہ ہے جو شوقیہ طور پر ملازمت کرتی ہے، انکی آمدن انکی ضروریات سے زیادہ ہے،اس طبقے کو معاشی طور پر تو اتنا نقصان نہیں ہوا لیکن نفسیاتی طور پر ضرور ہوا۔
دوسری طرف یہ لاک ڈاوُن کچھ ملازمت پیشہ خواتین کے لیے مفید بھی ثابت ہوا۔جو مجبوری میں ملازمت تو کر رہی ہیں اور انہیں گھر سے نکلنا پڑتا ہے لیکن وہ اپنا وقت اپنے اہل و عیال کے ساتھ گزارنا چاہتی ہیں اور یہ بہترین موقع ہے ک وہ اپنی فیملی کو بھرپور وقت دے سکیں لیکن بہرحال معاشی تنگی کا سامنا انھیں بھی کرنا پڑرہا ہے۔
تیسری کیٹگری وہ ہے جو نہایت مجبوری کی حالت میں گھر سے نکلتی ہے۔ان میں سے کچھ خواتین تو ایسی ہیں جن کا پورا گھر ان کی کمائ پر انحصار کرتا ہے۔ وہ خواتین کی اکثریت یا تو سیلز گرلز کے طور پر کام کرتی ہیں یا پارلرز میں کام کرتی ہیں، یا کچھ خواتین فیکٹریز میں کام کرکے اپنے گھر کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں، اور کچھ خواتین دوسروں کے گھر جا کر کام کرتی ہیں۔
تو اب غور طلب بات یہ ہے کہ اب کچھ انڈسٹریز کھل بھی گئی ہیں تو لوکل ٹرانسپورٹ نا کھلنے کی وجہ سے خواتین کو نہایت دشواری کا سامنا ہے۔مرد حضرات تو پھر بھی بائیک کا استمعال کر کے پہنچ سکتے ہیں لیکن خواتین کے لیے دشواری کا سبب بن گیا ہے۔
دوسری طرف ماہ رمضان اور عید کے موقع پر ان کے گھر والوں اور بلخصوص بچوں کی توقعات پر پورا اترنا ان کے لیے ایک اور بڑی آزمائش بن گیا ہے۔
جہاں خواتین کی مارکیٹیں مینا بازار، ہارون مارکیٹ اور دوسری کئ ایسے جگہیں ہیں جو خواتین کے لیے مخصوص ہیں اور وہ تمام مارکیٹیں بند ہونے کی وجہ سے انکا روزگار رک چکا ہے بلخصوص وہ خواتین جو روزانہ کی آمدنی پے کام کرتی ہیں اس وقت ان خواتین کو سخت مشکل کا سامنا ہے۔
اسی سبب کی وجہ سے کچھ مظاہرے دیکھنے میں آے اور ان میں عورتوں نے کہا کے ہمیں امداد نہیں چاہیے ہمیں روزگار چاہیے اور انکا پر زور اصرار یہی تھا کہ کاروبار کھول دیہ جایں۔
گورنمنٹ اور متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ کورونہ سے ہونے والی اموات کو ضرور مدنظر رکھا جائے لیکن ہوسکتا ہے اس لوک ڈاوُن سے ہونے والے ممکنہ نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوں۔ اس لیے میرے اپیل ہے کہ ایس۔او۔پیز کے ساتھ کاروبار کھولیں جایں اور روزگار کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ اس آزمائش کی گھڑی میں ان کے لیے آسانی کہ سامان پیدا ہو اور وہ بھی سہولت کے ساتھ اپنی آمدن کا ذریعہ جاری رکھ سکیں۔