نیت

223

توقیر عائشہ
ریکارڈنگ مکمل ہوتے ہی اس نے اپنی نوٹ بُک اٹھائی اور مفتی صاحب کی طرف متوجہ ہوگئی۔ ہمیشہ ہی اسکے پاس بہت سے سوالات ہوتے تھے جنکا جواب وہ مفتی صاحب سے لینا چاہتی تھی۔ ریکارڈنگ روم خالی ہو جاتا لیکن اسکے سوال ختم نہ ہوتے تھے۔ آج بھی سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا دیکھ کر مفتی صاحب نے اسکو کہا کہ اپنے سوالات میل کردیں، میں انشا اللہ جواب دے دوں گا۔ اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
پھر اس نے بھی اپنے ڈرائیور کو کال کی اور وہ پارکنگ ایریا سے گاڑی لا کر مرکزی دروازے پر مستعدی سے کھڑا ہوگیا۔ بیٹھنے کے بعد اس نے نظریں دوڑائیں۔ پارکنگ میں بہت کم گاڑیاں اور بائیکیں تھیں۔ فضا میں خاموشی تھی اور شہر کی سڑکوں پر ویرانی کا راج تھا۔ بس اِکا دُکا راہگیر، پولیس کی موبائلیں اور گلے میں ٹیگ لٹکائے ،سامانِ خورو نوش کے تھیلے لئے مختلف فلاحی تنظیموں کے رضاکاروں کی بائیکیں اور گاڑیاں۔۔۔ اُس نے وقت دیکھا، صرف ساڑھے نو بجے تھے اور لگتا تھا کہ جیسے آدھی رات بیت گئی ہے۔ یہ ویرانی اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔
اسکا تعلق تو اس دنیا سے تھا جہاں روشنیوں کی چکا چوند ہوتی اور رات میں بھی دن کا سماں ہوتا۔ رنگ و نور کی دنیا۔۔۔ شوبز کی دنیا۔۔۔ یہ تھی ماہین ابڑو۔۔۔ فلمی دنیا کا سب سے مہنگا ستارہ، بہت سے قومی و بین الاقوامی ایوارڈ ز کی حامل، صفِ اول کی اداکارہ۔۔۔۔ جو اس وقت ایک بڑے مستحکم نشریاتی ادارے کی رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کے لئے پروگرام ریکارڈ کروا کر اپنی رہائش گاہ پر واپس جا رہی تھی۔ آج سے دو سال پہلے اس چینل نے ماہین کو رمضان نشریات کے ایک ٹاک شو کی میزبانی کی پیشکش کی تھی۔ یہ مختلف دینی موضوعات پر ملک کے معروف مذہبی اسکالرز اور مفتی صاحبان کے ساتھ گفتگو کا ایک سلسلہ وار پروگرام تھا۔ گو کہ وہ وقت اسکے لئے خاصی مصروفیت کا تھا۔ عید پر ریلیز ہونے والی فلم کے آخری حصہ کی عکس بندی ہو رہی تھی۔ کچھ انوکھا کرنے کا شوق اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، لہذٰا اس نے حامی بھر لی۔ پھر کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ فلمی سین کے مطابق لباس پہنے عکسبندی کرا رہی ہوتی اور وہاں چینل کے اسٹوڈیو میں اسکا انتظار ہورہا ہوتا۔ وہ یہاں سے اٹھتے ہی ڈریسنگ روم میں جا کر شریفانہ حلیہ بناتی اور اسٹوڈیو کی راہ لیتی۔
مگر اس سال عالمگیر وبا کے پھیلنے سے حالات بالکل بدل گئے تھے۔ دنیا بھر میں کاروبارِ زندگی معطل تھا۔ فلموں کی شوٹنگز روک دی گئی تھیں۔ آرٹسٹوں کی آئے دن ہونے والی نجی تقریبات، سالگرہیں، فیشن شوز سب رکے ہوئے تھے۔ بیماری کے خوف نے چہار جانب اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ خوف کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ طبی ماہرین اسکا کوئی علاج دریافت نہیں کر پارہے تھے۔ بس ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کرنے کی تلقین کئے جاتے تھے۔ ماہین نے بھی سرگرمیاں محدود ہونے کے باعث اپنے پرسنل اسٹاف کو چھٹی دے رکھی تھی۔ بس ضرورتاََ بلا لیتی تھی۔ ان حالات میں وقت کی گردش رمضان المبارک کی پاکیزہ ساعتوں کو قریب کرتی جا رہی تھی لہذٰا معاہدے کے مطابق وہ وقت پر اسٹوڈیو پہنچ کر پروگرام ریکارڈ کروا رہی تھی۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ وحشت اور خوف کی کیفیت اس پر بھی طاری تھی۔
ماہین جب اپنے لگژری اپارٹمنٹ میں پہنچی تو حسبِ معمول زینت آپا دورازہ کھولے اسکی منتظر تھیں۔ زینت آپا ایک ادھیڑ عمر خاتون تھیں جو پچھلے دس برس سے اسکے پاس تھیں۔ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے نکل کر شوبز کا ستارہ بننے تک کے سفر میں والدین اور بہن بھائی عزت و وقار پر آنچ آنے کے ڈر سے تمام ظاہری تعلق توڑ چکے تھے۔ البتہ ہر ماہ اسکی جانب سے ایک خطیر رقم کا چیک ضرور وصول کر لیتے تھے۔ سرکاری نشریاتی ادارے میں کیمرہ مین کی ملازمت پر مامور ایک کزن نے اسے اس چمکتی دنیا تک رسائی دلائی تھی۔ باقی اسکا ٹیلنٹ تھا، خودسری اور بیباکی تھی، کچھ بڑی شخصیات کے سہارے تھے اور شہرت و دولت پانے کی خواہش جس نے اسے بہت جلد انٹرٹینمنٹ کے افق کا روشن ستارہ بنا دیا تھا۔
ضروری امور سے فراغت پانے کے بعد بیڈ کی پُشت سے ٹیک لگا کر اپنا آئی فون نکالا۔ پورا سوشل میڈیا دنیا بھر میں لاک ڈاءون کی صورتحال، بھانت بھانت کے تجزئیے، دنیا بھر سے مریضوں کی تعداد اور اموات کی شرح اور توبہ استغفار کی اپیلوں سے بھرا ہوا تھا۔ نیو یارک کی فلمی دنیا کے پیج پر وہ ہال دکھایا جا رہا تھا جہاں کبھی رنگ و نور کی بارش میں اُس نے اپنا بین ُ الاقوامی ایوارڈ وصول کیا تھا لیکن اس وقت کثیر تعداد میں اموات ہونے کے باعث وہاں بھی تابوتوں کی قطار لگی ہوئی تھی اور مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں۔ اُسے جھُرجھُری آگئی اور اس نے منظر جلدی سے پیچھے دھکیل دیا۔ گلا خشک ہونے لگا۔ بے ساختہ اُس نے اپنا ہاتھ چھو کر دیکھا کہ کہیں بخار تو نہیں لیکن سب کچھ ٹھیک تھا۔۔۔ بس وہم اور اندیشہ کی چھُبن تھی۔ اس کی دوبارہ توجہ اسکرین پر ہوگئی۔ دیندار طبقہ قوم کی اخلاقی حالت پر نوحہ کناں تھا۔ رشوت، کرپشن، ذخیرہ اندوذی، عریانی، فحاشی اور دیگر برائیوں میں گرفتار افراد کو توبہ کرنے کی تلقین کررہا تھا۔ ماہین کی نظر اُن عبارتوں پر ٹھہر ٹھہر جاتی تھی جہاں شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد کو انکی کھُلی کھُلی عریانی پر مبنی سرگرمیوں پر توبہ کی طرف توجہ دلائی جا رہی تھی۔ بعض افراد تو واشگاف الفاظ میں انہیں اللہ کے اس وبائی عذاب کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ اور بعض جگہ اسکی اپنی تصاویر لعنت ملامت کا ہدف بنی ہوئی تھیں۔
یہ پہلی بار تھا کہ وہ ان کڑوی باتوں کو خاموشی سے پڑھ رہی تھی اور اسکی پیشانی پر بَل نہ تھے بلکہ پسینہ تھا۔ پچھلے سال تک کسی دینی پروگرام میں اس انداز میں شمولیت اس کے نزدیک ایک مقدس کام تھا لیکن۔۔۔ بس ایک ایسا تقدس جو کسی بھی روحانیت کے بغیر ہوتا تھا۔ ناز او انداذ اپنائے، دانشوری کا مظاہرہ کرتے خوبصورت الفاظ، مہارت سے ادا کر کے وہ مطمئن ہو کر آجاتی تھی اور جب رمضان المبارک کی پاکیزہ ساعتوں میں وہ پروگرام آن ائیر جاتے اور مذہبی طبقہ ایک بیے باک خوبرو اداکارہ کی دینی پروگرام کی میزبانی پر خوب خوب اعتراض اُٹھاتا تو وہ اپنے ٹوئیٹر اور انسٹا گرام پر جارحانہ انداز میں چومُکھی لڑتی نظر آتی۔ اسکا موقف ہوتا ’’کیا دین پر صرف مذہبی طبقہ کی اجارہ داری رہے گی اللہ کی نظر میں اسکے سب بندے برابر ہیں۔‘‘ مگر اس وقت وہ ٹشو سے عرق عرق پیشانی پونچھتے ہوئے گہری سوچ میں گرفتار تھی۔ فلمی ماحول سے دوری، علمائے کرام کے ساتھ ہونے والی نشستوں اور مہلک وباء کے باعث دنیا کے بدلتے حالات، تینوں مل کر اسکے دل پر پڑے قفل پر مستقل ضربیں لگا رہے تھے۔ اس کی بے چینی نے اُسے مزید اسکرین پر نہ رہنے دیا۔ اس نے سایڈ ٹیبل سے اپنی نوٹ بُک اٹھا لی جس میں وہ ریکارڈنگ کے دوران ہونے والی گفتگو میں سے وہ جملے جو اس کے دل پر اثر انداز ہوتے تھے نوٹ کرتی تھی۔ اور ان جملوں کو پڑھنا شروع کیا۔
’’اللہ کی رحمت اسکے غضب پر حاوی ہے۔‘‘
’’جب جسم کو غذا نہ ملے تو جسم کمزور ہوتا ہے، جب روح کو غذا نہ ملے تو روح کمزور ہوتی ہے۔‘‘
’’قرآن روح کی غذا ہے۔”
(جاری ہے)
’’وضو چہرے کا نور بڑھاتا ہے.‘‘
’’ہر شخص اپنے گناہ سے خوب اچھی طرح واقف ہے.”
’’اللہ تعالیٰ حرام ذرائع سے حاصل کئے ہوئے پیسے سے کیا جانے والا صدقہ، خیرات یہاں تک کہ حج بھی قبول نہیں کرتے.‘‘
وہ تڑپ کر اُٹھ بیٹھی۔ وہ اسپتال، وہ تعلیمی ادارے، وہ بچوں کے خون منتقلی کے مراکز اور دیگر سماجی اور فلاحی ادارے اسکی نگاہ میں آرہے تھے جہاں ہر ماہ اسکا اکاءونٹ مینیجر بڑی بڑی رقوم کے چیک دے کر آتا تھا۔ اسکا مطلب ہے کہ میرا سب کچھ بیکار گیا!! کچھ بھی قبول نہ ہوا۔۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو ایک ایسی دلدل میں دھنستا محسوس کیا جہاں اسکا ہاتھ پکڑ کر نکالنے والا کوئی نہ تھا۔ بے بسی سے اس نے بیڈ کی پُشت سے سر ٹکا لیا۔ اسکو احساس ہوا کہ وہ رہی ہے۔ اس نے آنسو پونچھے اور نوٹ بُک کا صفحہ پلٹا۔
’’جو رب کی طرف پلٹ آتا ہے تو اسکے سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں، چاہے سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
ماہین نے اپنی بیس سالہ فنی خدمات پر نظر ڈالی۔ ملکی اور بین الاقوامی میلوں میں ملنے والے نیم برہنہ مجسموں کی صورت ملنے والے ایوارڈ، اعزازات، مقتدر اور با اثر شخصیات کے ساتھ منعقدہ نجی محفلیں، فلمی معاہدے۔۔۔ بس۔۔۔ یہ ہی تو ہے میر ی زندگی کا کُل حاصل اُس کے دل سے ایک آہ نکلی۔ کئی ہفتوں سے فلمی دنیا کے اُفق کا یہ روشن ستارہ ٹمٹما تو رہا تھا لیکن آج آسمان سے ٹوٹ کر گِر ہی گیا تھا۔ بے سہارا۔۔۔ ڈولتا ہوا۔۔۔ اُسے سہارا چاہیے تھا۔
وقت دیکھا۔ ڈیڑھ بج رہا تھا۔ اُس نے میل لکھی۔۔۔ صرف ایک سوال کی میل۔۔۔۔
’’کیا توبہ کا در میرے لئے بھی کھُل سکتا ہے؟‘‘
اسکے بعد ماہین نے سرہانے رکھی نیند کی گولی اُٹھائی اور پانی سے اتاری۔ اسے دوا کے سہارے کے بغیرنیند ہی کہاں آتی تھی۔ پھر حسبِ معمول دن چڑھے ہی آنکھ کھلی۔ حواس بیدار ہوتے ہی اس نے بے تابی سے اپنا میل باکس چیک کیا۔ مفتی صاحب کا جواب آگیا تھا۔۔۔
’’کیوں نہیں!! اللہ غفور و الرحیم ہے۔ اسکی رحمت اسکے غضب پر حاوی ہے۔ لا تقنطو من الرحمت اللہ۔ آپ اسکی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ وہ مالکِ کائنات تو بندے کی توبہ کا منتظر رہتا ہے۔ جب کوئی گناہوں سے آلودہ نفس کے ساتھ توبہ کا در کھٹکھٹاتا ہے تو اسکی رحمت اسکو تھام لیتی ہے۔ بس آپ نے جس راستے کو چھوڑنے کا عزم کیا ہے، اس پر مضبوطی سے جم جائیں۔ اللہ کی رحمتیں آپکی منتظر ہیں!! اللہ آپکا حامی و ناصر ہو۔” احساسِ تشکر سے اسکی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اب مجھے زمانے کا سامنا ایک نئے روپ میں کرنا ہے۔ اس نے عزم کیا۔ اسکے سرکل کا کیا ردِ عمل ہوگا، ماہین کو اس بات کا کچھ کچھ اندازہ تھا۔ لیکن ایسا ہو جائے گا، یہ اسکے گمان میں بھی نہ تھا۔
ابھی کچھ ہفتے پہلے اُس نے ایک فلم کا معاہدہ کیا تھا جس کی عکسبندی دو ماہ بعد شروع ہونی تھی۔ اس نےفلم کے ہدایتکار کوکال ملائی اور فلم میں کام کرنے سے معذرت کی۔ پہلے تووہ میڈم میڈم کرتا رہا اور پھر برس پڑا۔ اور پھروہ بھی برس پڑی ۔ ’’اگر میں مرگئی، تو بھی تو آپ کو کسی اور آرٹسٹ کا بند و بست کرنا ہی پڑے گا ناں!! یوں سمجھ لیجئے کہ میں مر گئی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ فلمی حلقوں سے نکل کر یہ بات ہونٹوں سے نکل کرکوٹھوں چڑھ چکی تھی۔ فلمی دنیا کے لوگوں ، پریس ، اور با اثر شخصیات کی کالز آنے لگیں۔ وہ تصدیق چاہتے تھے۔ وہ اسکو اپنے جال میں دوبارہ گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ اب تصدیق سے بڑھ کر دھمکیاں جاری ہوگئیں تھیں۔ با اثر شخصیات کے ساتھ اسکینڈلز وائرل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔۔۔ بغیر کوئی پریس کانفرنس کئے اسکے تائب ہونے کی خبر میڈیا پر چل پڑی تھی۔ اسے لگا کہ وہ کسی میدان میں کھڑی ہے اور چاروں طرف سے پتھر اور تیر برس رہے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں !! جب تک میں انکے کام کی تھی یہ لوگ مجھے سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ اب اسے سمجھ آیا کہ اسکے سماجی حلقے میں کوئی دوست نہ تھا سب کولیگ تھے۔ اسکی کنپٹیاں جل اٹھیں اور سر میں دھماکے ہونے لگے۔ ابھی تو اسے بہت کچھ کرنا تھا۔ نماز از سرِ نو سیکھنی تھی۔ قرآن کی تعلیم حاصل کرنی تھی۔ بی بی عائشہ اوربی بی فاطمہ رضی اللہ عنھما سے دوستی کرنی تھی۔ بنی کریم ﷺ کے ہاتھ سے آبِ کوثر پینے کے قابل بننا تھا۔ اللہ حکم ہو گیا تھا۔۔۔ مکانی حدود سے ماورا نوری مخلوق اسکو لینے کے لئے اس کے سرہانے جمع تھی۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھےکہ آسمانوں پر روح لے جانے کا معاملہ سختی کے ساتھ کیا جائے یا رحمت کے ساتھ۔۔۔ ایک طرف اس کی چمکتی دمکتی ذندگی کے بیس سال تھے اور دوسری طرف توبہ کے مراحل طے کرتے ہوئے چند دن۔ پھر ان بیس سالوں اور چند دنوں کو تولا گیا۔ اور سچی توبہ کے یہ چند دن سبقت لے گئے تھے۔ فرشتوں نے نرمی اور احترام سے روح کو لیا اور آسمانوں کی جانب پرواز کر گئے۔
دن بھر ماہین کمرے میں رہی تھی۔ جب شام کے سائے بھی گہرے ہونے لگے تو زینت آپا تشویش سے اسکے کمرے میں آئیں اوراسے بے ترتیب انداز میں دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ اسکا وجود بے جان ہو چکا تھا۔ آج انکا اور ماہین کا ساتھ ختم ہوچکا تھا۔
بریکنگ نیوز چل پڑی تھی ’’اپنے کیرئر کے عروج پر فلمی دنیا کو خیر باد کہنے والی معروف اداکارہ ماہین ابڑو اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئیں۔ کچھ عرصے سے وہ ذہنی دباءو کا شکار تھیں۔ انکی موت کی وجوہات میں خودکشی اور کورونا وائرس کے امکان کو بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔‘‘
نمود و نمائش، حیا سے عاری مصنوعی چمک والے لوگ اپنے اندر سے نکل جانے والے فرد کو اچھوت سمجھ کر اس سے فاصلے بڑھا ہی لیتے ہیں۔ موقع بڑا اچھا تھا۔ کسی تحقیقات کا انتظار کئے بغیر ہی ماہین کو کورونا کا شکار قرار دے دیا گیا اور خاندان کے چند افراد کی معیت میں سخت احتیاطی تدابیرکے ساتھ سپُردِ خاک کر دیا گیا۔
کبھی مایوس مت ہونا، اندھیرا کتنا گہرا ہو۔
کبھی تم مانگ کر دیکھو، تمہاری آنکھ کے آنسو۔
کبھی گرنے نہیں دے گا
وہاں جو ہاتھ اُٹھتے ہیں،
کبھی خالی نہیں آتے
تمہارے ایک کا بدلہ وہاں ستر سے زیادہ ہے۔
نیت تُلتی ہے پلڑٖوں میں،
کبھی مایوس مت ہونا ،کبھی مایوس مت ہونا۔