چینی شہر ووہان میں کورونا کے کیس دسمبر میں واضح طور پر آنے شروع ہوگئے تھے اور23 جنوری کو ووہان کا لاک ڈاون ہوچکا تھا ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایپی ڈیمیالوجسٹ ڈاکٹر پروفیسر سونیترا گپتا کی رائے ہمارے سامنے ہے کہ کورونا کا کیس سامنے آنے کا مطلب ہے کہ وائرس کا حملہ کم از کم ایک ماہ قبل ہوا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ووہان میں لاک ڈاون کیا گیا ، اس وقت تک پوری دنیا میں ووہان سے لوگوں کی آمدو رفت جاری تھی جس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ ووہان ہی چین کا جدید ترین شہر ہے ۔ یہیں پر چین کے بہترین تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں پاکستانی طالب علم بھی زیر تعلیم ہیں ۔ پروفیسر گپتا کے ماڈل کو دیکھتے ہوئے ، پوری دنیا میں مارچ تک کورونا کو اپنے عروج پر ہونا چاہیے تھا۔
ووہان میں جس وقت لاک ڈاون کیا گیا ، وہاں پر کورونا اپنے عروج پر تھا ۔ یعنی جس وقت کورونا ووہان کے باشندوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا ، اس دوران لاکھوں چینی باشندوں کی چین کے دیگر علاقوں سے ووہان میں روز آمدو رفت جاری تھی ۔ حیرت انگیز طور پر کورونا چین کے دیگر علاقوں میں بھی نہیں پھیلا ۔ یہ سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان میں کورونا کے کیس ایران جانے والے زائرین ، سعودی عرب اور یورپ سے ملک واپس آنے والوں کے ذریعے ہی کیوں پھیلا ، چین سے آنے والوں کے ذریعے جنوری میں ہی کیوں نہیں پھیل گیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات کہیں پر گڑبڑ ہیں ۔ پروفیسر گپتا بھی یہی کہتی ہیں کہ کورونا کا جرثومہ جس طرح کا ہے ، اسے ایک فرد سے دوسرے میں پھیلنے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے متاثرہ ایک ہزار افراد میں سے محض چند اس قدر بیمار ہوں گے کہ انہیں اسپتال کی سہولت درکار ہوگی ۔ بقیہ افراد میں سے اکثریت کو تو پتا ہی نہیں چلے گا کہ انہیں کوئی بیماری ہوئی بھی تھی جبکہ چند فیصد افراد میں اس کی ہلکی علامات ظاہر ہوں گی اور وہ بھی اپنے گھروں پر ہی صحتیاب ہوجائیں گے ۔
پاکستان کا مسئلہ پوری دنیا سے نرالا نہیں ہے ۔ جس طرح سے دنیا کے اصل حکمرانوں نے امریکا ، یورپ ، چین ، ایشیا ہر جگہ لاک ڈاون کردیا ، بالکل اسی طرح پاکستان کے حکمراں بھی ان کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ۔ سندھ حکومت یہ کریڈٹ لیتی ہے کہ سب سے پہلے اس نے کورونا کے خلاف لاک ڈاون کیا ، جس کے باعث یہ پورے پاکستان میں اس طرح سے نہیں پھیلا ، جس کے خدشات تھے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا کورونا پورے پاکستان میں سندھ سے ہی پھیل رہا تھا جسے سندھ حکومت نے روک دیا ۔ جس طرح سے سندھ میں ایران سے زائرین آئے ، اس سے زیادہ پنجاب میں آئے ۔ جتنے بیرون ملک مقیم پاکستانی سندھ میں آئے ، اس کے کئی گنا پنجاب اور خیبر پختون خوا میں آئے ۔ میر پور آزاد کشمیر تو کہلاتا ہی دوسرا مانچسٹر ہے تو پھر ان علاقوں میں اس طرح سے کورونا کا شور کیوں نہیں مچا ، جس طرح سے سندھ خصوصی طور پر کراچی میں اس کا واویلا کیا گیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے کورونا کے نام پر مسلسل آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے ، (واضح کرلیں کہ یہ قرض کی رقم ہے مفت ملی امداد نہیں ہے ) ۔ قرض کی یہ رقم تمام اسپتالوں میں اور خصوصی طور پر قائم کیے گئے آئسولیشن مراکز میں حصہ بقدر جثہ کے حساب سے بندر بانٹ کردی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسپتالوں میں کورونا کے نام پر جمع کرنے والوں اور مارنے والوں کی ریس لگی ہوئی ہے ۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ کررہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ آئسولیشن مراکز قائم کررہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم ان کی جیبوں میں جاسکے ۔ کراچی کی مثال واضح ہے کہ ایکسپو سینٹر میں واقع آئسولیشن مرکز تقریبا خالی ہی پڑا ہے ، مگر اس میں بستروں کی تعداد ایک ہزار سے بڑھا کر ڈیڑھ ہزار کردی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ پی اے ایف میوزیم میں مزید پانچ سو بستروں کا نیا آئسولیشن سینڑ قائم کردیا گیا ہے ۔ یہ تو صرف دو مراکز کا ذکر ہے ، کراچی کے درجنوں اسکولوں اور کالجوں میں قائم کیے گئے گھوسٹ قرنطینہ مراکز اس کے علاوہ ہیں ۔ جب کراچی جیسے شہر کا یہ حال ہے جہاں پر میڈیا متحرک ہے تو پھر اندرون سندھ کا حال زیادہ بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے ۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب حکومت تو مزید ایک قدم بڑھ گئیں کہ انہوں نے اپریل تا جولائی ہوٹل ہی بک کروالیے ہیں ۔ سندھ حکومت کی فراہم کردہ سہولیات کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارڈ ڈزیز کے حال میں ہی ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر فرقان اتوار کو ایمبولینس میں ہی اس لیے انتقال کرگئے کہ وہ پورا دن ایمبولینس میں گھومتے رہے مگر شہر میں کوئی وینٹی لینٹر انہیں نہیں مل سکا ۔ کورونا کے نام پر کھانے والوں میں کوئی تخصیص نہیں ہے، اس میں فوجی انتظامیہ بھی شامل ہے ، سیاستدان بھی اور بیوروکریسی بھی ۔ میڈیا کو پہلے سے ہی اس کا حصہ اس کی اوقات سےزیادہ مل چکا ہے۔
ہر روز کہا جاتا ہے کہ آئندہ دو ہفتے انتہائی اہم ہیں اور مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ جائے گی کہ لوگ ووہان اور اٹلی کو بھول جائیں گے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان میں کورونا کو پھیلنا ہوتا تو یہ فروری اور زیادہ سے زیادہ مارچ میں اپنے عروج پر ہوتا ۔ مگر ایسا کہیں پر نہیں ہوا۔
چونکہ اب کورونا کے مریض اتنی تعداد میں دستیاب نہیں ہیں جس کا شور مچایا گیا ہے تو اب نیا طریقہ واردات اسمارٹ سیمپلنگ اور ٹیسٹنگ کے نام پر نکالا گیا ہے ۔ اس طریقہ واردات کے تحت میڈیا ہاوسز ، پولیس ، فیکٹریوں و دیگر دفاتر میں جا کر لوگوں کی سیمپلنگ کی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر گپتا کے ماڈل کے مطابق یہ وائرس چونکہ پوری دنیا میں پھیل چکا تھا تاہم اس نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا ، تاہم اس کے جراثیم آپ کو ہر فرد میں سے مل جائیں گے۔ Random Sampling کے نتیجے میں اب صحت مند افراد کو بھی کورونا کا مریض ڈیکلیئر ثابت کرنے کا دھندا جاری ہے ۔ پاکستان میں ایجنٹوں کو مال مل رہا ہے اور دنیا کے حقیقی حکمرانوں کو افراد کو غلام بنانے کا جواز۔
کوئی تو آڈٹ کرے کہ بیرون ملک سے آنے والی ٹیسٹنگ کٹ کہاں گئیں ، کس اسپتال کو کتنے فنڈز فراہم کیے گئے ، کس آئسولیشن مرکز پر کتنی رقم خرچ کی گئی اور وہاں پر کیا سہولیات تھیں اور لیبارٹریوں نے کورونا ٹیسٹنگ کے نام پر کتنا مال بنایا ۔ کوئی تو بتائے کہ کورونا کا تشخیصی ٹیسٹ کیا ہے اور کتنا قابل اعتبار ہے ۔ اب تو اسد عمر نے بھی بتادیا ہے کہ لاک ڈاون سے دس لاکھ ادارے بندش کا شکار ہیں اور دو کروڑ کے قریب افراد بے روزگاری کا ۔ لاک ڈاون کا اثر اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہ بات اسد عمر بھی کہہ رہے ہیں کہ جتنے لوگ کورونا سے روز مرتے ہیں ، اس کا کئی گنا تو روز ٹریفک حادثات میں مرجاتے ہیں ۔ ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا ، والا کردار نہ صرف ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اب یہ کردار ہر جگہ نظر آرہا ہے ۔ ہرسطح کے دارالحکومت کے ساتھ رائے ونڈ اور بلاول ہاوس سے بھی آپ کو بانسری کی یہ دھن سنائی دے گی ۔ غور سے سنیں تو پریس کانفرنس کرنے والے ڈاکٹر بھی یہی بانسری بجارہے ہوں گے اورلاک ڈاون ختم کرنے کے سوال پر منہ سے جھاگ اڑاتے وزراء بھی۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔