خاندان رحمت نشان‬

352

قرۃالعین ظہیر ناظم آباد
ہمارے معاشرے میں خاندان ننھیال،ددھیال،میکا اور سسرال پر مشتمل ہوتے ہیں-اس تقسیم کے ساتھ پورے خاندانی نظام کی ترویج وا کامیابی ہمارے مثبت رویوں پر منحصر ہے-ننھیال ددھیال مل کر باہم خاندان بناتے ہیں-اسلام میں معاشرے کی بنیاد ہمارے خاندان پر ہی ہے اگر اس میں توازن ہوگا تو معاشرے میں بھی سکون خوشگواری اور توازن ہوگا-مگر اس خاندان کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہے؟قرآن پاک میں ارشاد ہے(اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نصب اور سسرال کے الگ الگ سلسلے چلائے)سورہ نحل*** ایک طرف والد کی نسبت سے دادا ،دادی،پھو پھی،چچا،تایا دوسری طرف والدہ تو ان کی مناسبت سے نانی،نانا،ماموں،خالہ پھر انکی اولادیں یہ ایک مکمل خاندان بن جاتا ہے-گویا خاندان بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے-(نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی کہ تم اپنے نسبوں(رشتے داریوں)کو سیکھو تاکہ اپنے رشتہ داروں کی پہچان کر کے ان سے سے صلہ رحمی کر سکو-آج ہم اپنے بنائے ہوئے رشتوں کو تو نبھانے اور برتنے کے لیے ہزاروں قربانیاں دیتے ہیں مگر اللہ کےبنائے ہوئے رشتوں اور ان کے حقوق سے ہر ممکن حد تکدامن چھڑا لیتے ہیں-
اسلام رشتہ داروں اور قرابت داروں کے حقوق و فرائض کی ادائیگی پر جنت اور لمبی عمر کی بشارت دیتا ہے اور کہیں بری موت اور مصیبت ٹلنے کا ‘کہیں نیکیاں قبول کرنے کا اور کہیں اپنے رشتہ اللہ سے جوڑ لینے کا-قریبی رشتہ داروں میں میکہ اور سسرال دونوں شامل ہیں-ہم صرف میکے ہی کہ کیوں قریب ہوتے ہیں؟ سسرال پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہیں؟؟ آج رشتوں کو ہم نے خود دو حصوں میں بانٹ دیا ہے- ایک طرف نند ،،دوسری طرف بہن ،،ماں اور بہن آنکھ کا تارا-ساس اور نند بوجھ!آخر کیو ں؟ہم سسرالی رشتوں کو سوتیلا کیوں بناتے ہیں حالانکہ ہمارے بچے کا نسب چلتا ہی سسرال سے ہے-سسر باپ کے درجے پر اور ساس ماں کے درجے پر-ان تمام رشتوں کی لڑیوں کو مضبوط باندھنا اور مزید خوبصورت بنانا اور رشتوں کو جوڑنے کا پل کا کام عورت کو ادا کرنا ہوتا ہے کیونکہ شوہر سے منسوب ہونے کی وجہ سے نسب جڑا تو قرابت کا تعلق خود بخود پیدا ہو گیا-لہذاہمیںبدگمانیوںسےبچناہے دراصل شیطان خاندان میں نفرت پیدا کرنے کے لئے اسی راستے کو اختیار کرتا ہے -سورہ الرعد میں اللہ پاک فرماتے ہیں(ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے آیت 21) اسلام کی تعلیم راہبانہ انداز سے ترک تعلق کی نہیں بلکہ ضروری تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے-تمام حقوق کو اللہ تعالی نے ہر انسان(مردوعورت) پرلازم کیے ہیں-انسان اپنے رشتے داروں،قرابت داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے خوشی غم میں ان کے شریک حال اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے- بلکہ صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کہ حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرےکیونکہ شریعت الہی ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگو ں کو بھوکا ننگا نہ چھو ڑ یں کیونکہ معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کررہا ہوں اور اسی کے خاندان میں اس کے اپنے بھائی کپڑے تک کو محتاج ہو-خاندان معاشرے کا ایک اہم عنصر ہے ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر،پھر دوسروں کے حقو ق ہیں-آج امت مسلمہ جہاں دیگر مسائل کا شکار ہے وہاں ہمارے خاندانی نظام کو بھی نفرتوں کی بھینٹ چڑ ھا یا جارہا ہے -یہ ایسی گھمبیر صورت حال ہے کہ آپ کی اولاد اپنے سگے رشتوں کے نام سے بھی نفرت کرنے لگتی ہے-دادا،دادی،پھوپھی،چچا،تایا نفرت کی علا مت بن جاتے ہیں ادب واحترام کے رشتے بھی ختم ہو نے لگتے ہیں-اپنی ہی اولاد کو کنفیوز شخصیت کا مالک بنا دیتے ہیں یعنی بہت بڑا ظلم کرتے ہیں! خون کا رشتہ انہی سے ہیں اگر ان رشتوں میں دوریاں پیدا کر دی گئی تو یقینا آپ کی اولاد ایک مکمل کامیاب شخصیت نہیں بن سکے گی اگر آج اپنی اولاد کو ان رشتوں سے متنفر کریں گے تو آپ سے اپنی اولاد کو بھی دور کردےگے-یقین کریں ان رشتوں کی نفرت اور دوری آپ کبھی سہا ر نہیں پائوگے بہت تکلیف دیتا ہے سگےرشتوں کا دور ہوجا نا-اللہ نہ کرے ایسا ہواللہ نہ( اور تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکرے ٹکرے کر ڈالا)سورہ النحل-مسلمان عورت اپنی اولاد کو اپنے رب کے قریب کرتی ہے وہاں رشتوں کی مضبوطی اور پائیدار ڈوریوں میں بھی باندھتی ہے -ضرورت اس بات کی ہے افراد خاندان خوف اللہ اور آخرت کی جوابدہی کے احساس صبروتحمل سوجھ بوجھ،حکمت و خیرخواہی اور احسان کے جذبے سے معاملات کو چلائیں-پھر ہم خود محسوس کریں گے کہ ہر طرف سکون و اطمینان ہے خاندان کیسے یکجا ہو گیا-