گوادر میں اب تک کورونا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

1230

گوادرمیں لاک ڈاؤن کا ماڈل باقی شہروں سے مختلف ہے؟پاکستان بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری و تجارتی سرگرمیاں بند ہیں،مزدور طبقہ بے روزگار اور تاجر پریشان ہیں مگر بلوچستان کے شہر گوادر میں انتظامیہ نے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے ساتھ ساتھ تاجروں اورمزدوروں کی مشکلات دور کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے۔

ساحلی شہر میں انتظامیہ نے ایران کے ساتھ زمینی اور سمندری سرحد اور شہر کے داخلی راستوں پر سخت انتظامات کرنے کے بعد تاجروں کو ہفتے میں صرف ایک بار مختلف اوقات اور دنوں میں کاروبار کی اجازت دی ہے۔

ماہی گیروں کو بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ساحل سے پانچ ناٹیکل میل کی حدود میں مچھلی کے شکار کی اجازت دی گئی ہے۔

ڈپٹی کمشنر گوادر کیپٹن ریٹائرڈ محمد وسیم کا کہنا ہے کہ گوادر میں اب تک کورونا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔کسی کو شہر سے باہر نکلنے یا اندر آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی اور کوئٹہ جانے والے راستوں کو چیک پوسٹیں بنا کر سیل کیا گیا ہے۔ ایران کے ساتھ زمینی و سمندری سرحد پر مقامی قبائل کے تعاون سے آمدورفت بند کرائی گئی ہے۔

داخلی و خارجی راستوں پر سخت نگرانی کے بعد ہم نے شہر میں محدود پیمانے پر کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی ہے۔انہوں نے کہا کہ تاجر اور مزدور طبقہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت متاثر ہو رہا تھا،حکومت ہر گھر تک راشن نہیں پہنچا سکتی اس لیے ہم نے غریب طبقے کی مشکلات کے پیش نظر اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ انجمن تاجران کے ساتھ مل کر ہم نے خوراک اور ضروری اشیا کے علاوہ باقی تمام کاروبار کے لیے مختلف اوقات اور دن مقرر کر دیے ہیں۔

موبائل فون شاپس، جیولرز، کاسمیٹیکس، جوتوں، ہارڈویئر، فرنیچر، سیمنٹ اور سریے کی دکانیں ہفتے میں صرف ایک بار الگ الگ دن اور اوقات میں چھ گھنٹے کے لیے کھلیں گی۔شہر میں ہر کاروبار کے لیے مخصوص دن مقرر کیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ کپڑے اور درزی کی دکانیں جمعرات کو شام کے بعد سات گھنٹے اور اتوار کو صبح کے اوقات میں چھ گھنٹے کھولنے کی اجازت ہوگی۔حجام بھی ہفتہ میں صرف ایک دن کام کریں گے۔

کیپٹن ریٹائرڈ محمد وسیم کا کہنا ہے کہ موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی مرمت اور پرزہ جات فروخت کرنے والی دکانیں ہفتہ اور اتوار کو شام چار بجے سے رات دس بجے تک کھلیں گی۔

ماہی گیروں کی سہولت کے لیے مچھلی کے جال فروخت کرنے والوں کو بھی ہفتہ میں ایک دن کاروبار کی اجازت ہوگی۔

دکانیں کھولنے کے دوران حفاظتی تدابیر پرسختی سے عمل درآمد کرایا جا رہا ہے۔ماسک، دستانے اور سینی ٹائزر کے استعمال کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ایک دکان میں بیک وقت تین سے زائد افراد کے جمع ہونے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ماہی گیر حفاظتی اقدامات کے ساتھ مچھلیاں پکڑ سکتے ہیں۔

انجمن تاجران گوادر کے صدر غلام حسین دشتی نے ضلعی انتظامیہ کے فیصلے کو سراہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلسل ایک ماہ سے بازار اور دکانیں بند ہونے کی وجہ سے تاجر بہت پریشان تھے۔

چھوٹے تاجروں کے گھروں میں بھی فاقوں کی نوبت آگئی تھی۔کئی کاروباروں کا رمضان اور عید کے دنوں میں سیزن ہوتا ہے۔اگر دکانیں مزید بند رکھی جاتیں تو تاجروں کا پورا سال ضائع ہو جاتا ہے۔تاجر انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرکے کاروبار کر رہے ہیں۔ڈپٹی کمشنر گوادرکا کہنا ہے کہ گوادر کی زمینی اور سمندری سرحدیں ایران کے ساتھ لگتی ہیں جن کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔جیونی اور بندری کے قریب ایران سے ملحقہ سمندری حدود میں کشتیوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ان علاقوں کے مچھیروں کو متبادل جگہ پر ماہی گیری کی اجازت دی گئی ہے۔

کیپٹن ریٹائرڈ محمد وسیم کے مطابق گوادر میں تقریباً 30 ہزار سے زائد افراد ماہی گیری سے گھر چلاتے ہیں۔انہیں تنگ گلیوں میں قائم گھروں میں بٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ہر وقت ہجوم اکٹھا رہنے اور بیروزگاری سے بچنے کے لیے مچھیروں کو ساحل سمندر سے پانچ ناٹیکل میل کے اندر ماہی گیری کی اجازت دی ہے تاکہ وہ اپنا گھر بار چلاسکیں۔اس سے لوگوں کی خوراک کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مچھلی کا شکار کرکے واپس آنے والے ہر ماہی گیر کی ساحل پراسکریننگ کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میڈیکل ٹیمیں اور رضا کار تعینات کئے گئے ہیں۔ماہی گیروں کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتے ہوئے ان میں پانچ ہزار سے زائد ماسک بھی تقسیم کئے گئے ہیں۔

گوادر میں سکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کیے گئے ہیں،انجمن تاجران بلوچستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت کوئٹہ جیسے بڑے شہر میں بھی اسی طرح کی حکمت عملی اپنائے ۔جوتوں، کاسمیٹیکس، جیولری اور کپڑوں کا کاروبار کرنے والوں کا یہی سیزن ہے۔

انہیں محدود اوقات میں کاروبار کی اجازت دی جائے۔تاجروں نے کروڑوں روپے کا مال ادھار پر خریدا ہے۔یہ مال اگر اب فروخت نہیں ہوگا تو وہ معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے۔