مکان سے گھر تک

1752

 

 

ڈاکٹر فرحت حبیب
ڈاؤ میڈیکل کالج کیفیٹیریا میں گرماگرم بحث جاری تھی. مصباح، فرحت اور منیبہ کو قائل کرنے کے لیے زوردار دلائل دے رہی تھی، کہ اعلی ڈگری لینے کے بعد میں تو کبھی بھی گھر نہیں بیٹھوں گی ، ضائع ہو جائے گی. جبکہ فرحت اورنورین کا یہ ماننا تھا کہ ہسپتال ہو یا گھر، دونوں بڑی ذمہ داریاں ہیں، انصاف قطعا نہیں ہو سکتا۔
یہ تینوں باہر لان میں آگئیں، فرحت نےسردیوں کی چمکتی سورج کی کرنوں سے تپش حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد موسم کی مناسبت سے کافی کا آرڈر دے دیا اور بولی، “ڈگری بھاگی تو نہیں جا رہی پہلے گھر گرہستی چل جائے پھر ڈاکٹری بھی چلا لیں گے۔
“میں اپنے بچے نوکروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی، ملازموں کے ہاتھوں استری سے جلانے کے واقعات بھی سنے ہیں “۔
” تم تو دور کی کوڑی لانا”مصباح بولی
اچانک باسکٹ بال جیتنے والی ٹیم کے لڑکوں لڑکیوں نے جیت کی خوشی میں نعرے بازی شروع کر دی. انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔
زندگی کتنی خوبصورت ہو گئی تھی۔ سب دو سال بعد تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں داخل ہونے والے تھے. یہ طلسم ٹوٹنے والا تھا۔
سلسلہ ءکلام کو جوڑتے ہوئے نورین نے بڑے پتے کی بات کی۔
“دیکھو! لڑکی کا نصیب اسے کن لوگوں سے واسطہ ڈالے، اسکو ایسے خواب نہیں دیکھنے چاہئیں، جن کے حصول میں اسکا گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے، ورنہ کامیاب ہو کر بھی وہ زندگی میں ناکام ہو جائے گی، جب کوئی اسے ناہنجار بیوی بہو یا ماں کے لقب سے پکارے گا، کیوںکہ وہ مکان کو گھر نہیں بنا سکی، اپنا کیرئیر بنانے کے لیے اس نے اپنے رشتوں کو دینے والا وقت ہسپتال کے وارڈ راؤنڈ کی نائٹ ڈیوٹیز میں گنوا دیاہو گا۔ میں تو نہیں کر سکتی” ثوبیہ ہاتھ کے اشارے سے ہمیں بلا رہی تھی۔ ایک ہفتے سے جاری اسپورٹس ویک کا آج آخری دن تھا. مصباح 50میٹر کی دوڑ میں حصہ لینے کے لیے یہ کہتی ہوئ اٹھ گئی،۔
“یہ زندگی بھی ایک ریس ہے میری جان! دوڑو گی نہیں تو ہار جاؤ گی۔
تم لوگ بحث جاری رکھو میں آکر نتیجہ پوچھتی ہوں ….. ”
مجھے تو نہیں دوڑنا، کتنا آکورڈ لگ رہا ہے لڑکوں کے بیچ میں دوڑنا! ” نورین بولی۔
“یار بڑا مشکل کام دے کر گئ ہے کہ نتیجے تک پہنچو “فرحت ہنستے ہوئے بولی۔
” ہم لڑکیوں کی بھی کیا زندگی ہے، جان مار کر جب ڈگری لے لیتی ہیں تو زندگی پھر سے ایک دوراہے پر آ کرکھڑی ہوجاتی ہے. ان کی قسمت کی ڈور انجان لوگوں کے ہاتھ آ جاتی ہے. جو شادی سے پہلے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور بعد میں بہانے سے صرف گھر تک محدود کر دیتے ہیں.وجہ کبھی ساس نند کا حسد یا خود شوہر کی انا کی تسکین ہوتی ہے “فرحت بولی۔
نورین نے کہا” تم پر قنوطیت چھا رہی ہے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، دیکھنا اپنی زندگی میں میں ہر کام کروں گی “۔
مصباح خوشی سے جھومتی ہوئ آئ اس نے ریس جیت لی تھی اور بولی،” دیکھا! ایسے جیتا جاتا ہے، چلو
لگاؤ شرط آج سے پندرہ سال بعد ہم دیکھیں گے کہ کون کہاں پہنچا. میرا کزن فوج میں ہے اور میرا رشتہ آیا ہوا ہے ڈگری لیتے ہی شادی ہو جائے گی مگر میں جاب کرتی رہوں گی. کیونکہ فوجی کی بیوی کو فوج ہی میں با آسانی جاب مل جاتی ہے ”
” کیا فائدہ تم آگے نہیں پڑھو گی تو سب ضائع ہو جائے گا؛ ابھی ریس جیتنے کی باتیں کر رہی تھی “. منیبہ نے چوٹ کی.
” دیکھو بھئی میرے چھوٹے چھوٹے خواب ہیں چھوٹا سے گھر، اچھا ساتھی اور چھوٹی سی جاب، اسپیشلائز کرتے کرتے تو بال ہی سفید ہو جائیں گے”. سوچوں میں گم مصباح نے جواب دیا. “تم لوگ کیا سمجھی زندگی کی ریس صرف بہت سارا پڑھ کر نہیں جیتی جاتی، بلکہ بال بچوں سمیت کچھ کر نا ہی جیتنا ہے”مصباح نے آنکھ ماری.
اور ثوبیہ تم تو ہر امتحان پاس کرنے سے پہلے فیل ہو تی ہو تم تو گھر بیٹھ جانا “جی نہیں” ثوبیہ نے تنک کے جواب دیا، “میں تو اسپیشلائز کروانے
کی شرط پر شادی کروں گی. ویسے مجھے بار بار پڑھنے کی وجہ سے تم سب سے زیادہ آتا ہے اور کنسلٹنسی کروں گی” ڈن ہے! پندرہ سال بعد دیکھیں گے کس نے کیا کیا؟ ”
زندگی آگے بڑھ گئ ماہ و سال بیتنے لگے. سب سہیلیاں بچھڑ گئیں. سترہ سال بعد فرحت جو اب ہاؤس وائف تھی اپنی بیٹی جسکا ڈاؤ میڈیکل کالج میں حال ہی میں داخلہ ہوا تھا اسکے ساتھ شاپنگ مال میں خریداری کر رہی تھی کہ اسے اپنے پیچھے کسی کے چیخنے کی آواز آئ، وہ پلٹی اور حیران رہ گئی. نورین خوشی سے اسکے گلے لگ گئی. رسمی علیک سلیک کے بعد نورین نے بتایا کہ وہ حال ہی میں امریکہ سے واپس آئ ہے چار بچوں کے ساتھ. وہ خود بھی پردے میں تھی اور بچیاں بھی، اسی لئے فرحت اسے پہچان نہیں سکی۔
وہ مسکرا کےبولی “واہ بھئ گھریلو عورتوں کی طرح شاپنگ ہو رہی ہے تم بھی میری طرح ہاؤس وائف ہو اور ماشاءاللہ اپنی زندگی سے مطمئن بھی لگ رہی ہو، بہت خوب!”
فرحت نے نورین کو کافی کارنر میں لا بٹھایا.” جی نہیں جناب! میرا ایک کلینک بھی ہے.”
وہ ثوبیہ اور منیبہ کے بارے میں بتا رہی تھی . کہ دونوں کی شادی حال ہی میں ہوئ ہے. دونوں نے پہلے اسپیشلائزیشن کیا ثوبیہ سعودی عرب میں چائلڈ اسپیشلسٹ ہے اور منیبہ انگلینڈ میں میڈیسن میں اسپیشلائز کرکے جاب کر رہی ہے۔ نورین بتا رہی تھی، مگر انکی زندگی بہت ادھوری ہے، ایک کے شوہر کی سیکنڈ میرج ہے، اسکو بچے نہیں چاہئے اور منیبہ کے ہوتے ہی نہیں بہت ویران زندگی ہے۔ دونوں میاں بیوی دن بھر گھر سے باہر کمانے میں گزار دیتے ہیں، مگر خرچ کرنے والا کوئی نہیں. اسی لئے وہ کسی سے ملنا پسند نہیں کرتیں کہ دوسروں کی مکمل زندگی انکو انکی کامیابیوں کا منہ چڑاتی محسوس ہوتی ہے۔
انھوں نے ساری زندگی اپنے خوابوں کی تکمیل میں گزار دی، مگر یہ تلخ حقیقت ان کے سامنے اب بھیانک روپ دھار چکی ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ان کا مکان گھر نہیں کہلا سکا اور بڑھاپے میں انکے خوشی اور غم بانٹنے والا کوئی نہیں…….