چینی مافیا اور اصولوں پر سودے بازی

968

بہت عرصے سے ہم کہتے آرہے ہیں کہ جن لوگوں کو ہم ملک میں خرابی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں ان کی یہ خوبی ضرور ہے کہ وہ کبھی قانون کی خلاف ورزی اور اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے۔ چناں چہ ایک اور کیس سامنے آگیا۔ کسی نے بتایا کہ چینی لاکھوں ٹن زیادہ پیدا ہوگئی تھی۔ کیسے پیدا ہوگئی یہ پتا نہیں۔ کسی کو پتا نہیں چلا کئی لاکھ ٹن چینی زیادہ پیدا ہوگئی۔ لیکن یہ بات پتا رکھنے والوں کو پتا تھی کہ اس کا علاج چینی کی برآمد ہے۔ چناں چہ پہلے مرحلے پر قانون کے مطابق سبسڈی دی گئی۔ جن لوگوں کو سبسڈی دی گئی اتفاق سے وہ خود حکمران پارٹی کے تھے یا اس کے حلیف۔ چناں چہ سبسڈی تو قانون کے مطابق دی گئی۔ اب یہ اور بات ہے کہ سارے اپنے نکلے۔ دوسرا مرحلہ شکر برآمد کرنے کی اجازت کا تھا وہ بھی ان ہی لوگوں کو ملنی تھی جو شکر کے کارخانوں کے مالک تھے اس میں ان کا کیا قصور کہ وہ اسمبلی اور سینیٹ میں بھی ہیں اور حکومت میں بھی یا اس کے حلیف۔ کچھ چھینٹیں یا قطرے اپوزیشن والوں کے اومنی گروپ کو بھی مل گئی۔ شاید اومنی والوں نے شعر کچھ اس طرح سمجھا دیا ہو کہ اے خانہ بر انداز ’’چینی‘‘ کچھ تو ادھر بھی۔ اور انہوں نے اومنی گروپ کو کچھ تو دے دیا۔ اس کچھ میں بھی لگ بھگ ایک ارب روپے کا فائدہ صرف سبسڈی میں ہوگیا۔ چوں کہ ان تمام معزز ارکان پارلیمنٹ اور حکومت نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور جو کام کیا اصولوں کے مطابق کیا۔ اس لیے ان کو بُرا کیوں کہا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس لیے سخت ترین ایکشن لیتے ہوئے وزارتیں بدل دیں۔ گویا جس تھانے دار سے زیادہ شکایات تھیں اسے فوری طور پر اس تھانے سے ہٹادیا گیا۔ لیکن دوسرے تھانے میں لگادیا گیا۔ بھائی تو اپنا پیٹی بند ہے۔ پولیس والے ایسا کریں تو سب بُرا کہتے ہیں۔ حالاں کہ وہ بھی قانون کے مطابق یہ کام کرتے ہیں۔
مسئلہ کیا ہے… اگر سب کچھ قانون اور اصول کے مطابق ہے تو پھر اپوزیشن وغیرہ کیوں ہنگامہ کررہے ہیں۔ اس پر ایک بات یاد آگئی پہلے بھی کئی مرتبہ دہرائی جاچکی ہے کہ یہ لوگ کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے۔ چوں کہ پرانے زمانے سے یعنی پچاس ساٹھ برس سے یہی ہورہا ہے یہ لوگ مال کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں، پھر وہاں بیٹھ کر لوٹ مار کے حوالے سے قوانین بنانے کے لیے مشورے کرتے ہیں اور کچھ اصول وضع کرلیتے ہیں پھر ان اصولوں کی روشنی میں سودے بازی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اصول خود ہی وضع کرلیا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دی جائے گی۔ اصول وضع کرنے والوں ہی میں شوگر مل مالکان بھی بیٹھے ہیں اور سب کو پتا ہے کہ وزیراعظم کے خاص لوگ ہیں۔ چناں چہ اصول وضع ہوگیا۔ اب دوسرا اصول یہ کہ ان کو شکر برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان لوگوں نے اس اصول کو پارلیمنٹ سے وضع کرالیا اور سب نے اصول پر کسی سودے بازی سے انکار کرتے ہوئے چینی برآمد کردی۔ یہ اصول صرف چینی، آٹا والی مافیا کا نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو پارلیمنٹ یہ طے کرتی ہے کہ ارکاان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا جائے۔ اصولاً پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ کسی کی تنخواہ بڑھادے۔ چناں چہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ اضافی تنخواہ لینے لگتے ہیں۔ فوج کی مثال لے لیں چوں کہ وہ ملک و قوم کے خادم، سرحدوں کے محافظ، دہشت گردوں سے پرسرپیکار ہیں اس لیے میجر کے عہدے سے اوپر جا کر ایک حد تک مراعات کا حقدار ہوگا۔ مزید اوپر جائے گا، مزید مراعات، زرعی تجارتی رہائشی زمینیں وغیرہ، منصب بڑھتے بڑھتے ان کا حق بنتی رہتی ہیں۔ چوں کہ یہ اصول بھی پارلیمنٹ سے وضع کردہ ہے اس لیے اس پر سودے بازی نہیں ہوسکتی۔ بے چارہ پوسٹ مین جو پہلے پیدل وموٹر سائیکل پر اور پھر موٹر سائیکل پر گھر گھر ڈاک پہنچاتا تھا اس کے لیے کوئی اصول وضع نہیں کیا جاسکا۔ دیگر بہت سارے سرکاری محکمے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، واٹر بورڈ، رجسٹرار، صحت وغیرہ ان کے لوگ پارلیمنٹ تک رسائی نہیں رکھتے اس لیے یہ جو کچھ کرتے ہیں اصولوں کی خلاف ورزی، قانون شکنی اور سودے بازی ہے، یا تو یہ پارلیمنٹ سے اپنے لیے بھی ایسے ہی اصول بنوالیں جیسے چینی اور آٹا مافیا نے بنوالیے ہیں۔ یعنی چار سو گز کے پلاٹ کی رجسٹریشن پر رجسٹرار کے ایک لاکھ نچلے عملے کے لیے 50 ہزار جب یہ قانون بن جائے گا تو یہ رشوت قوانین کہلائیں گے۔ اسی طرح محکمہ صحت، بجلی، پانی وغیرہ ہیں یہ بھی اور پولیس بھی اپنے لیے قوانین بنوالے۔ موٹر سائیکل والے سے دو سو روپے سے زیادہ رشوت لینا اصولوں کے خلاف ہوگا۔ عام گاڑی والے سے پانچ سو سے ہزار روپے تک اور بڑی گاڑی پجارو والوں کو سلیوٹ کا اصول بنایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہم کرپشن کی حمایت نہیں کررہے بلکہ معاشرے کا بہت بڑا طبقہ اپنے نیم مردہ ضمیر پر بوجھ ڈال کر یہ ساری رشوتیں لے رہا ہے۔ عمران خان صاحب جن کو نیازی لکھنے پر ہمیں فون آجاتے ہیں جب کہ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ میرا نام عمران خان نیازی ہے۔ مجھے اسی نام سے پکارا جائے۔ بہرحال جب عمران نیازی صاحب آٹا چینی مافیا کے سامنے اس لیے بے بس ہیں کہ انہوں نے اصولوں کے مطابق کام کیا ہے، وہ پارلیمنٹ اور پارٹی کے لیے اہم ہیں تو باقی شعبوں کے لیے بھی اسی طرح کے اصول وضع کردیے جائیں کم از کم کرپشن کے حوالے سے پاکستان کا گراف عالمی سطح پر بہت بہتر ہوجائے گا کیوں کہ سارے کام غلط ہونے کے باوجود قانون کے مطابق ہی ہوں گے۔