ممتاز صحافی نصر اللہ چودھری با عزت بری، سی ٹی ڈی کے تمام الزامات بے بنیاد تھے، سندھ ہائیکورٹ

337

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائی کورٹ نے ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں سزا پانے والے سینئر صحافی اور کراچی پریس کلب کے رکن نصر اللہ چودھری کو باعزت بری کردیا۔ بدھ کو ہونے والی مختصر سماعت میں سندھ ہائی کورٹ نے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ممنوعہ لٹریچر کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا حکم دیا ۔ 30 دسمبر 2019ء کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں نصراللہ چودھری کو 5 سال قید، 10 ہزار روپے جرمانہ جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید ایک ماہ کی سزا کا حکم دیا تھا۔جس کے خلاف نصراللہ چودھری نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا اور ان کے خلاف ممنوعہ لٹریچر سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے، مزید یہ کہ ان کی گرفتاری اور غیر قانونی حراست پر نہ صرف ملکی بلکہ عالمی میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں ریکارڈ کا حصہ ہیں اور عدالت نے ان کی غیر قانونی حراست کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سزا سنائی۔ مذکورہ درخواست پر بدھ کو عدالت عالیہ میں سماعت ہوئی جہاں سینئر صحافی نصر اللہ چودھری کی جانب سے محمد فاروق ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور دلائل دیے۔ محمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ بنیادی قانون کے اصولوں کے برخلاف ہے، سینئر صحافی کو غیر قانونی حراست میں رکھ کر 3 دن بعد گرفتاری ظاہر کی گئی۔ واضح رہے کہ 8 نومبر 2018 کو سادہ لباس مسلح افراد کراچی پریس کلب میں داخل ہوئے تھے اورانہوں نے پریس کلب کے مختلف کمروں، کچن، عمارت کی بالائی منزلوں اور اسپورٹس ہال کا جائزہ لیا تھا جبکہ انہوں نے جبری طور پر وڈیوز بھی بنائیں اور موبائل کیمرے سے تصاویر بھی لی تھیں۔اس واقعے کے بعد نصراللہ خان چودھری کے گھر پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور انہیں اٹھا کر لے گئے۔ بعد ازاں 12 نومبر کو سی ڈی ٹی نے نصراللہ چودھری کو عدالت میں پیش کیا تھا اور ان پر ممنوعہ لٹریچر رکھنے کا الزام عایدکیا تھا۔