تمباکو مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے سے کورونا کے لئے فنڈز حاصل ہوسکتے ہیں

703

کراچی :تمباکو مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے سے عالمگیر وبا کورونا وائرس اور اس جیسی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے فنڈز حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں تمباکو کے استعمال اس سے ہونے والی  اموات کی شرح بہت زیادہ ہے پاکستان میں ہر سال تمباکو سے متعلق بیماریوں سے 160،000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے 70 فیصد اندرونی جگہوں پر دوسرے ہاتھ کے دھواں کی وجہ سے و نقصان اٹھاتے ہیں. غیر فعال سگریٹ نوشی نوجوانوں اور نابالغوں کے لئے اتنا ہی خطرناک ہے۔ یہ اعدادوشمار پہلے ہی  خطرناک تھے مزید کسر کورونا وائرس نامی  موجودہ عالمی وبائی مرض نے پوری کر دی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ، کمزور مدافعتی نظام اور سانس کے دیگر مسائل کی وجہ سے تمباکو نوشی کرنے والوں کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔

بدقسمتی سے اس وائرس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے اوراس جان لیوا وائرس کا اس وقت کوئی علاج نہیں ہے توقع کی جا رہی ہے کہ ویکسین بننے میں  کم سے کم  12 سے 18 ماہ کا مزید وقت لگے گا ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے کمزور صحت کے نظام اس وبا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس وائرس سے نمٹنے کے لئے خرچ ہونے والے ہر روپیہ کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ملک میں اب بھی موجود دیگر بیماریوں سے نمٹنے کے لئے مختص اخراجات کو کم کررہی ہے۔ اگر تمباکو کی بڑی صنعت نہ ہوتی تو نہ صرف سانس کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد میں کمی ہوتی بلکہ اربوں روپے  ٹیکس جو لوٹا گیا وہ صحت پر خرچ ہوسکتے تھے۔ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کی جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-2017 اور 2017-2018 میں تمباکو کی صنعت نے اپنی پیداوار کو  بالترتیب  27 سے 47 فیصد  کم ظاہر کیا ۔ پیداوار کی کم رپورٹنگ کی وجہ سے ٹیکس میں ہونے والا  خسارہ  37 ارب روپے تھا ۔

یہ محظ افواہ ہے کہ تمباکو کی صنعت ملک کے لئے آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بناتی ہے۔ حقیقت  کے برعکس ، 2016 سے لے کر 2019 تک ، تمباکو کی بڑی صنعت نے پاکستان کو 153 ارب روپے کا بھاری نقصان پہنچایا۔ اس صنعت کو ٹیکس کی کم شرح (77.85 بلین روپے کا نقصان ) اور ان کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے برانڈز ( 75 ارب روپے کا نقصان) کی قیمت میں  ایڈجسٹمنٹ سے فائدہ  ہوا۔ اگر 90 فیصد برانڈز کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ نہ کی جاتی تو زیادہ مقدار میں ٹیکس لگتا۔ پاکستان میں سگریٹ کی پیداوار کی کم  رپورٹنگ کو بھی ماہرین نے  سرکاری ٹیکس محصولات کے نظام کی ناقص کارکردگی کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ پچھلے تین سالوں کے دوران ، تمباکو کی بڑی صنعت نے 75 فیصد سگریٹس تیار کیے ہیں لیکن انہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے  بہت کم پیداوار پیدا کرنے کا دعوی کیا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تجویز کردہ تمباکو کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف تمباکوکے استعمال  میں کمی آئے گی بلکہ اس سے ٹیکس کی اضافی آمدنی بھی ہوگی جو سانس کی بیماریوں اور وبائی امراض جیسے کرونا وائرس  سے متعلق سرکاری صحت کے پروگراموں کے لئے فنڈ فراہم کرسکتی ہے۔