آزاد کشمیر کا ایک یادگار سفر

634

خبروں میں بتایا گیا ہے کہ آزاد کشمیر میں کورونا وائرس کے صرف دو چار مریض ہیں جب کہ پاکستان میں وائرس کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم آزاد کشمیر میں بھی احتیاطی تدابیر کے تحت تمام تعلیمی ادارے، سرکاری و نجی دفاتر اور کاروباری سرگرمیاں بند ہیں البتہ اندرون آزاد کشمیر ٹرانسپورٹ چل رہی ہے اور لوگ آ جا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو آزاد کشمیر قدرتی طور پر لاک ڈائون ہے اس کا قدرتی رابطہ مقبوضہ کشمیر سے ہے، مظفر آباد سے سیدھی سڑک سرینگر کو جاتی ہے، اسی طرح راولا کوٹ اور دیگر مقامات سے بھی مقبوضہ کشمیر تک آسان رسائی ممکن ہے، لیکن کنٹرول لائن پر بھارت کی طرف سے خاردار باڑھ کی تعمیر نے تمام قدرتی راستوں کو مکمل طور پر لاک ڈائون کردیا ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان کوہالہ پل حائل ہے۔ شدید بارشوں کے سبب لینڈ سلائیڈنگ ہوجائے تو یہ سرحد بھی بند ہوجاتی ہے۔ ایک سڑک مظفر آباد سے بالاکوٹ اور وادی کاغان کو جاتی ہے لیکن اس پر بھی لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ غرض آزاد کشمیر چاروں طرف سے محفوظ ہے اور وہاں زمینی راستوں سے کورونا وائرس کے مریض نہیں پہنچ سکتے۔
آزاد کشمیر کے ذکر سے ہمیں اس کا پہلا یادگار سفر یاد آرہا ہے۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے نتیجے میں مقبوضہ پونجھ سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آزاد کشمیر آگئی تھی اور آزاد کشمیر حکومت ان کی دیکھ بھال میں مصروف تھی۔ حکومت نے ان کے لیے امداد کی اپیل بھی کی تھی۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو اس اپیل کا علم ہوا تو اس نے مہاجرین کشمیر کی امداد کے لیے ایک امدادی فنڈ قائم کردیا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے اس فنڈ میں فراخدلانہ عطیات جمع کرائے۔ جب اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی تو جماعت کی قیادت نے اس امدادی رقم کو براہ راست آزاد کشمیر حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا وفد تشکیل دیا گیا جس میں امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان مولانا عبدالرحیم سیکرٹری جنرل پروفیسر غلام اعظم، مولانا ابوالکلام یوسف اور دیگر عمائدین شامل تھے۔ وفد ڈھاکا ائرپورٹ سے لاہور کے لیے روانہ ہوا۔ یہ 1966ء کے اوائل کی بات ہے۔ جنوری یا شاید فروری کا مہینہ تھا۔ ہم ایک دن مرکز جماعت اچھرہ پہنچے تو مشرقی پاکستان کے قائدین کا وفد وہاں موجود تھا۔ فرداً فرداً سب سے ملاقات ہوئی۔ ان حضرات نے بتایا کہ وہ ایک دو دن میں آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد جارہے ہیں جہاں وہ صدر آزاد کشمیر سے ملاقات کرکے کشمیر میں مہاجرین کے لیے امدادی چیک پیش کریں گے اور مسئلہ کشمیر پر ان کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کریں گے۔ ابھی ان سے گفتگو ہورہی تھی کہ سعید صدیق الحسن گیلانی تشریف لے آئے اور ہمیں دیکھتے ہی بولے ’’اخاہ متین صاحب ہمیں آپ ہی کی تلاش تھی ہم لوگ کل مظفر آباد جارہے ہیں آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ آخر کوئی تو اخبار نویس ہونا چاہیے جو واپس آکر دورے کی رپورٹ شائع کرے۔ معلوم ہوا کہ گیلانی صاحب کو مولانا مودودی نے مشرقی پاکستان وفد کا گائیڈ مقرر کیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کو وفد کی آمد کی اطلاع دینا اور دیگر انتظامات کرنا ان کے ذمے تھا۔ سید صدیق الحسن گیلانی اور سید اسعد گیلانی، دونوں گیلانی برادران جماعت اسلامی میں اہم ذمے داریوں پر فائز تھے۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے صدیق الحسن گیلانی مرکز میں شعبہ سیاسی امور کے انچارج تھے۔ نہایت بذلہ سنج حاضر جواب اور جملہ باز شخصیت، وہ مخاطب کو چٹکیوں میں اڑانے کا ملکہ رکھتے تھے۔ دورئہ مظفر آباد کی دعوت پر ہمارے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ پہلی دفعہ مظفر آباد جانے اور آزاد کشمیر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا اس لیے فوراً رضا مندی میں سر ہلا دیا۔ گیلانی صاحب مسکرائے اور ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’کل صبح دس بجے تک یہاں پہنچ جائو ہم ٹھیک دس بجے یہاں سے روانہ ہوجائیں گے‘‘۔
ہم اگلے دن وقت مقررہ پر مرکز پہنچے تو ائرکنڈیشنڈ کوچ سفر کے لیے تیار کھڑی تھی۔ سردیوں کے دن تھے اور مہمانانِ گرامی کوٹ اور جرسیوں میں لدے پھدے کوچ میں بیٹھے تھے، ہمیں فرنٹ سیٹ پر جگہ دی گئی اور جناب گیلانی نے ہمارے ساتھ والی سیٹ سنبھالی۔ وہ سارے راستے اپنے پُرلطف جملوں اور لطیفوں سے اپنے ہم سفروں کو محظوظ کرتے رہے۔ ہمارا پہلا پڑائو راولپنڈی میں تھا جہاں جماعت اسلامی راولپنڈی نے مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ کھانے اور نماز سے فارغ ہو کر ہم اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ راولپنڈی سے نکلتے ہی پہاڑی سلسلہ شروع ہوگیا اور مسافر ان کے نظاروں میں گم ہوگئے۔ گیلانی صاحب بھی اونگھنے لگے اور گاڑی میں بالکل خاموشی طاری ہوگئی۔ مظفر آباد پہنچے تو شام کے سایے گہرے ہوچکے تھے بلکہ رات دہلیز پر کھڑی تھی۔ ہم نے سب سے پہلے مغرب اور عشا کی قصر نمازیں اکٹھی ادا کیں جب کہ اس سے پہلے ہم لوگ ظہر اور عصر کی قصر نمازیں راولپنڈی سے پڑھ کر چلے تھے۔ اس طرح قصر نمازوں کی افادیت کا بھی اندازہ ہوا۔ ہمیں ایک سرکاری ریسٹ ہائوس میں ٹھیرایا گیا تھا۔ جہاں تمام سہولتیں موجود تھیں۔ خاص طور پر گرم پانی کی سہولت جس نے مشرقی پاکستان کے مہمانوں کو آسودہ کردیا تھا۔ بہرکیف کھانا کھانے کے بعد سب لوگ شب باشی کے لیے کمروں میں چلے گئے۔ اگلے دن صبح دس بجے ایوان صدر میں صدر صاحب سے ملاقات کا وقت طے تھا۔ اُن دنوں خان عبدالقیوم خان کے چھوٹے بھائی عبدالحمید خان آزاد کشمیر کے صدر تھے۔ خان قیوم کو صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) میں ’’مرد آہن‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ عبدالحمید خان صوبہ سرحد سے آکر صدر آزاد کشمیر کیسے بنے۔ یہ راز ہم پر نہ کھل سکا۔ شاید وہ جنرل ایوب خان کا انتخاب تھے جو پاکستان کے آمر مطلق بنے ہوئے تھے۔ بہرکیف ہم اگلے دن صبح دس بجے مشرقی پاکستانی قائدین کے ہمراہ ایوانِ صدر پہنچے جہاں صدر آزاد کشمیر اور ان کی کابینہ کے ارکان ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ واضح رہے کہ اُس وقت آزاد کشمیر میں بھی پاکستان کی طرح صدارتی نظام رائج تھا اور ایوان صدر میں پوری حکومت براجمان تھی۔ صدر صاحب نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے وفد کے لیے خیر مقدمی کلمات کہے اور مشرقی پاکستان سے قائدین کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد امیر جماعت مشرقی پاکستان مولانا عبدالرحیم نے صدر کو امدادی چیک پیش کرتے ہوئے مختصر خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے دل بھی اپنے کشمیری عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ برطانیہ کا پیدا کردہ ہے، وہ ہندوستان سے رخصت ہوتے ہوئے کشمیری عوام کی قسمت کو معلق چھوڑ کر برصغیر کے امن میں ایک ایسا خنجر پیوست کر گیا جس سے ہمیشہ خون رِستا رہے گا۔ یہ خنجر کشمیری عوام کو حق خودارادی دے کر ہی نکالا جاسکتا ہے اور یہ ذمے داری اقوام متحدہ کو پوری کرنی چاہیے۔ مختصر تقریب کا اختتام پُرلطف چائے سے ہوا۔ ہم کچھ دیر اور ایوان صدر میں رہے اور صدر صاحب اور ان کے رفقا سے غیر رسمی گفتگو ہوتی رہی۔ انہوں نے بتایا کہ مقبوضہ جموں سے پاکستانی کمانڈوز کی واپسی کے بعد بھارتی فوج اور مقامی ہندوئوں نے مسلمانوں کو شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور انہیں زبردستی آزاد کشمیر میں دھکیل دیا ہے۔ حکومت نے خیمہ بستیاں بنا کر انہیں پناہ دی ہے اور ان کی مناسب دیکھ بھال کر رہی ہے۔ بعد میں وفد کو اُن خیمہ بستیوں کا دورہ بھی کرایا گیا۔ وفد نے سیز فائر لائن کا بھی دورہ کیا۔ اُس وقت آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان حدّفاصل کو سیز فائر لائن ہی کہا جاتا تھا اسے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کا نام شملہ سمجھوتا کے بعد دیا گیا۔ حکومت آزاد کشمیر کے افسر مہمانداری کی معیت میں ہم لوگ پیر پنجال اور دیگر مقامات پر بھی گئے۔
لاہور واپسی کے لیے طے پایا کہ ہم لوگ پہلے مظفر آباد سے بالاکوٹ جائیں گے اور شہدائے بالاکوٹ کے مزارات پر حاضری کے بعد لاہور کا سفر اختیار کریں گے۔ چناں چہ اس پروگرام کے مطابق ہم لوگ بالاکوٹ گئے۔ وہاں سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید کے مزارات پر فاتحہ خوانی کی۔ مقامی رفقا نے وفد کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ کھانے کے بعد ظہرین ادا کی اور لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔ اس سفر کو پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن لوح ذہن پر اس کی یادیں اب بھی نقش ہیں۔