کورونا کی ویکسین 2 ماہ میں تیار کرلیں گے،پروفیسر سعید خان پر عزم

648

کراچی (رپورٹ: محمد انور) ملک میں نوویل کورونا کی ویکسین کی تیاری کے لیے عملی کام شروع کردیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن ( ایچ ای سی) آف پاکستان کو تجاویز روانہ کردی گئیں ہیں۔ اس بات کا انکشاف ملک کے ممتاز و ماہر وائرو لوجسٹ، بائیولوجسٹ اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے مالیکولر پتھالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سعید خان نے اتوار کو ’’جسارت‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر سعید خان نے بتایا ہے کہ ہمارے پروپوزل کی منظوری کے بعد ویکسین کی تیاری کے لیے ضروری اشیا درآمد کرنے کے لیے کارروائی کی جائے گی اور ’’بیکٹریاز‘‘ وغیرہ آنے کے بعد ویکسین کی تیاری کا کام ڈاؤ یونیورسٹی ہیلتھ سائنس میں شروع کر دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کے پروفیسرز اور وہ خود بھی یہ ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ویکسین کی تیاری کے لیے مطلوبہ ضروری اشیا جلد سے جلد آجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ نوویل کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں تاخیر ہو، ہم اللہ کے حکم سے زیادہ سے زیادہ 2 ماہ میں ویکسین تیار کرلیں گے۔ پروفیسر سعید نے کہا کہ ویکسین کی تیاری کے لیے محض ایک کروڑ50 لاکھ روپے کے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ پروفیسر سعید خان کا کہنا تھا کہ ’’بھارت اور امریکا بھی نوویل کورونا وائرس کے لیے کوئی ویکسین تیار نہیں کرسکا، بھارت اور امریکا میں اس وائرس کا علاج ملیریا کے لیے موجود دوائی کلوروکوئین سے کیا جارہا ہے ، ہمارے ملک میں بھی اس مقصد کے لیے یہ دوا استعمال کی جارہی ہے جس کے استعمال سے مریضوں کو فائدہ بھی ہوا ہے۔ تاہم یہ دوائی حتمی نہیں ہے اور نہ ہی ابھی تک اس کی امریکا کے ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے نوویل کورونا وائرس کے لیے استعمال کی منظوری دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ کلوروکوئین کا مریضوں کے لیے بغیر ڈاکٹرز کے مشورے کے استعمال کرنا نقصاندہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس دوائی کا ازخود یا بطور سیلف میڈیکشن استعمال کرنا نقصاندہ بھی ہے اس طرح مریض کی جان بھی جاسکتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سعید خان نے بتایا کہ کوروناوائرس صدیوں پرانا ہے اس کی واضح تیسری نسل نوویل کورونا ہے۔ کورونا کی پہلی اور دوسری نسل جانوروں تک محدود رہا کرتی تھی، لیکن اب اس کی تیسری نسل جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کے بعد صرف انسان سے انسان میں منتقل ہوتی ہے۔ اس نوویل کورونا نے انسانوں کو بطور بہترین میزبان کے قبول کر لیا ہے اس لیے اب یہ انسانوں سے انسانوں ہی میں منتقل ہوتا ہے اس کے منتقل ہونے کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے یہ خطرناک قرار پا کر دنیا بھر کے انسانوں کے لیے خوف کا باعث بن چکا ہے۔ یہ اس وقت تک انسانوں میں رہ سکتا ہے جب تک انسان اس جراثیم کے لیے خود کو خطرناک یا نقصان دہ ثابت نہ کر دے۔ جو ویکسین ہم تیار کریں گے وہ انسانوں کو دینے کے بعد اس وائرس کے لیے خطرناک ہوجائے گی جس کے بعد وہ انسانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ سعید خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ فلو یا نزلہ کا عنصر نویل کورونا میں شامل نہیں ہے نزلہ ، انفلوئنزا وائرس سے ہوتا ہے وہ ایک الگ چیز ہے ، کورونا وائرس کی واضح علامات میں کھانسی ، سانس لینے میں دشواری اور بخار ہے۔ نزلہ ایک اور بیماری کے طور پر کوروناوائرس کے مریضوں میں ہوسکتا ہے مگر اسے کوروناوائرس سے مت منسلک کیا جائے۔ جو نزلہ کو کورونا وائرس سے جوڑ رہے ہیں وہ سنگین غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پروفیسر سعید کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’بیماریاں اللہ کی طرف سے آتی ہیں اور وہی شفا دینے والاہے‘‘ مگر ہم بھی اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور علم کے مطابق ہر طرح کے وائرس کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور کر بھی رہیں ہیں، اللہ نے ہر بیماری کا علاج بھی رکھا ہے، بس ہم تو وہ علاج تلاش کرنے کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صفائی نصف ایمان ہے، ہمارا ظاہر اور باطن دونوں صاف ہونا چاہیے اور بحیثیت مسلمان ہم سب کو اللہ اور اس رسول محمدؐ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے ، یہی فارمولہ ہر طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہنے کا واحد اور آسان طریقہ ہے۔ خوفزدہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر سعید خان کا کہنا ہے کہ ملک کے سائنس دان اور حکومت کوروناوائرس سے بچاؤ کے لیے حتمی علاج کی تلاش اور اقدامات کرنے میں مصروف ہیں۔