وزیراعلیٰ اور وزیر صحت میں چپقلش ،طاہر شمسی کی تجویز سرد خانے کی نذر

275

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کی باہمی چپقلش نے کراچی کے عوام کو بدترین خطرات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، کراچی میں کورونا وائرس کے کیسز میں خطرناک حد تک بڑھنے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا، وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر صحت کی لڑائی نے کورونا وائرس کے متاثرین کو پورے کراچی میں پھیلا دیا، چیف سیکرٹری کی جانب سے بھیجی گئی پیسیو تیکنیک امیونائزیشن طریقہ علاج کی سمری بھی سرد خانے کی نذر کر دی گئی، پاکستان آرمی میڈیکل کور کی جانب کراچی میں ایکسپو سینٹر میں 1200 بستروں کے قرنطینہ سینٹر کو تو فعال کر دیا گیا ہے مگر حکومت سندھ کی جانب سے سکھر کی طرز پر ڈھائی کروڑ کی آبادی رکھنے والے شہر قائد میں کوئی بھی ایک مرکزی قرنطینہ مرکز یا تشخیصی سینٹر ایک ماہ گزر جانے کے باوجود قائم نہیں کیا جا سکا، تمام مشتبہ کیسز کو شہر کے مختلف اسپتالوں میں بھیجا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے ایک ماہ گزر جانے کے باوجود تا حال کورونا وائرس سے متعلق کوئی فوکل پرسن بھی مقرر نہیں کیا جا سکا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر صحت سندھ کے درمیان باہمی اختلافات نے سنگین صورت حال کو سنگین ترین بنا دیا ہے اور اب تک کوئی یونی فارم پالیسی بھی تشکیل نہیں دی جا سکی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ کی ناقص حکمت عملی اور باہمی اختلافات کی بنا پر ڈھائی کروڑ سے زاید آبادی پر مشتمل شہر قائد میں بجائے ایک مرکزی قرنطینہ مرکز یا تشخیصی سینٹر بنانے کے شہر بھر کے تمام علاقوں سے ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال، ڈاکٹر رتھ فاؤ کے این سول اسپتال، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جناح اسپتال) اور نجی اسپتالوں انڈس اسپتال، آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور ضیا الدین اسپتال بھیجا جا رہا ہے، حکومتی ذرائع کے مطابق کراچی میں تاحال مقامی سطح پر ایک سے دوسرے کے ذریعے متاثر ہونے والوں کی تعداد 417 ہو چکی ہے تاہم اس ضمن میں آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد کئی گنا زاید ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر حکومت سندھ کی جانب سے سکھر کی طرز پر ایک مرکزی قرنطینہ سینٹر اور تشخیصی سینٹر قائم کر دیا جاتا کہ جہاں پر ٹیسٹنگ سروس بھی موجود ہوتی اور ضرورت پڑنے پر وہاں لوگوں کو قرنطینہ میں بھی رکھا جا سکتا تو شہر قائد میں مقامی سطح پر کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کو قابو میں رکھا جا سکتا تھا، جس طرح سکھر میں رکھا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سکھر قرنطینہ مرکز میں پورے سندھ سے متاثرین لائے جا رہے ہیں اور وہیں ان کی تشخیص بھی ہو رہی ہے اور وہیں انہیں آئسولیٹ بھی کیا جا رہا ہے، متاثرین میں سے اکثر کا تعلق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ سمیت دیگر وزرا کے علاقوں سے ہے اور ان کو وہاں طعام و قیام کی دیگر آسائشیں اور سہولتیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر صحت سندھ کے باہمی اختلافات کی بنا پر ملک کے معروف ماہرین امراض خون ڈاکٹر طاہرشمسی اور ڈاکٹر ثاقب انصاری کی جانب پیسیو ٹیکنیک امیونائزیشن طریقہ علاج یعنی پلازما کے ذریعے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کی تجویز پیش کی گئی تھی، جس کی صرف منظوری مانگی گئی تھی، چیف سیکرٹری کی جانب اس طریقہ علاج کی منظوری کے لیے سمری 4 روز قبل محکمہ صحت اور وزیر اعلیٰ سندھ ٹاسک فورس کو بھیجی گئی تھی مگر یہ سمری تا حال منظور نہیں کی گئی ہے اور اسے سرد خانے کی نذر کر دیا گیا ہے۔