دو قومی نظریہ اور تاریخ کا وینٹی لیٹر

1689

پاکستان کے سیکولر، لبرل، کمیونسٹ اور سابق کمیونسٹ عناصر کو اگر ’’نظریاتی کورونا وائرس‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عناصر پاکستان کے اسلامی تشخص پر حملہ کرکے اسے فنا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان سے یہ کام ممکن نہ ہوپائے تو وہ یہ کوشش ضرور کرتے ہیں کہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو ’’بیمار‘‘ قرار دے کر تاریخ کے ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر ڈال دیں۔
چند روز پیش تر 23 مارچ کے موقع پر ڈاکٹر نعمان احمد نے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں دو قومی نظریے کو ’’کورونا حملے‘‘ کے ذریعے تاریخ کے وینٹی لیٹر پر ڈالنے کی شیطانی کوشش کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر نعمان احمد این ای ڈی یونیورسٹی میں Faculty of Architecture and management Sciences کے ’’ڈین‘‘ ہیں۔ یعنی وہ اس ریاست کے ملازم ہیں جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے مگر ڈاکٹر نعمان نے اس کے باوجود بھی دو قومی نظریے کو تاریخ کے وینٹی لیٹر پر ڈالنے کی سازش کی ہے۔
23 مارچ 2020ء کے ڈان میں شائع ہونے والے ان کے مضمون کا عنوان ہی اشتعال انگیز ہے اس لیے کہ ڈاکٹر نعمان نے عنوان کے ذریعے دو قومی نظریے پر تھوک دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے مضمون کا عنوان کیا ہے؟ ان کے مضمون کا عنوان ہے۔
’’Beyond the two nation theory‘‘
یعنی دو قومی نظریے سے آگے۔ اس عنوان سے ہمیں کمیونسٹ عرف ترقی پسند دانش ور ڈاکٹر مبارک علی کا ایک فقرہ یاد آگیا۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں فرمایا اب ہمیں قرآن سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ڈاکٹر مبارک پاکستانی معاشرے اور امت مسلمہ کو قرآن سے آگے لے جانا چاہتے ہیں اور ڈاکٹر نعمان احمد کا خواب یہ ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے یعنی اسلام کو ترک کرکے ’’آگے‘‘ بڑھے۔ لیکن اسلام سے آگے تو صرف لبرل ازم، سیکولر ازم اور نیو مارکسزم کا گٹر ہے۔ ڈاکٹر نعمان احمد کی خواہش یہی ہے کہ پاکستانی قوم اسلام کے روحانی سمندر سے نکلے اور سیکولر ازم، لبرل ازم یا نیو مارکسزم کے گٹر میں چھلانگ لادے۔
ہر قوم اور ہر ملک کا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ سوویت یونین کا نظریہ مارکسزم تھا لیکن سوویت یونین میں کسی شخص کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ اب ہمیں مارکسزم سے آگے بڑھ کر کسی اور ازم یا کسی اور نظریے کو گلے لگا لینا چاہیے۔ امریکا اور یورپ لبرل ہیں۔ آپ امریکا یا یورپ کے کسی ملک کے اخبار میں ایسا مضمون شائع نہیں کراسکتے جس میں امریکا اور یورپ کو آزادی، جمہوریت اور مساوات کے ’’عقاید‘‘ کو ترک کرکے کسی اور نظریے مثلاً اسلام کو اختیار کرنے کی کھلی یا ڈھکی چھپی دعوت دی گئی ہو۔ مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں ایک سرکاری ملازم کھل کر کہہ سکتا ہے کہ اب ہمیں دو قومی نظریے یعنی اسلام کے ’’اُس پار‘‘ دیکھنا چاہیے۔ یہاں ہم سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا پاکستان میں کوئی شخص یہ لکھ سکتا ہے کہ اب ہمیں پاکستان میں آئی ایس آئی سے آگے سی آئی اے یا را کی طرف دیکھنا چاہیے؟ بلاشبہ یہ بہت سے سیکولر، لبرل اور سابق کمیونسٹ عناصر کے دلوں کی آرزو ہوگی مگر وہ یہ بات کہنے یا لکھنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام یا دو قومی نظریہ اتنا ’’یتیم‘‘ ہے کہ آپ پوری قوم کو دو قومی نظریے سے آگے بڑھنے کی دعوت دے سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر نعمان احمد نے اپنے مضمون میں لکھا کیا ہے۔
ڈاکٹر نعمان کے مضمون کا ایک فقرہ یہ ہے۔
’’The theory has been interpreted in multiple ways‘‘
یعنی دو قومی نظریے کی کوئی ایک تعبیر نہیں ہے بلکہ اس کی بہت سی تعبیرات ہیں۔ یہ ایک صریح جھوٹ ہے۔ دو قومی نظریہ اسلام ہے اور اسلام کی ہر تعبیر اسلام ہے۔ مثلاً حنفی اسلام بھی اسلام ہے، شافعی اسلام بھی اسلام ہے، مالکی اسلام بھی اسلام ہے، حنبلی اسلام بھی اسلام ہے۔ حتیٰ کہ دیوبندی اسلام بھی اسلام ہے۔ بریلوی اسلام بھی اسلام ہے۔ یعنی اسلام کبھی بھی ’’لبرل اسلام‘‘ نہیں ہوسکتا۔ اسلام کبھی ’’سیکولر اسلام‘‘ نہیں ہوسکتا۔ اسلام کبھی کمیونسٹ یا ’’سوشلسٹ اسلام‘‘ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح دو قومی نظریہ اوّل بھی اسلام ہے، آخر بھی اسلام ہے، ظاہر میں بھی اسلام ہے، باطن میں بھی اسلام ہے۔ یہ معاملہ صرف اسلام کا نہیں۔ سوشلزم ایک نظریہ تھا مگر اس کا ایک ’’روسی ماڈل‘‘ تھا۔ ایک ’’چینی ماڈل‘‘ تھا۔ ایک ’’کیوبائی ماڈل‘‘ تھا۔ مگر ان تمام ماڈلز کی تعبیر صرف ’’سوشلزم‘‘ تھا۔ یہی قصہ جمہوریت کا ہے۔ جمہوریت ایک نظریہ ہے۔ اس کا ایک ’’امریکی نمونہ‘‘ ہے۔ ایک ’’برطانوی نمونہ‘‘ ہے۔ ایک ’’فرانسیسی نمونہ‘‘ ہے۔ مگر ان تمام نمونوں کا اصل تشخص صرف ’’جمہوریت‘‘ ہے۔ یہی کہانی دو قومی نظریے یا اسلام کی ہے۔ دو قومی نظریہ ہر تعبیر کی رو سے صرف ’’اسلامی‘‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ڈاکٹر نعمان احمد نے اپنے مضمون کے ذریعے دو قومی نظریے کے بارے میں ’’سفید جھوٹ‘‘ کو عام اور ’’لاعلم‘‘ لوگوں کو گمراہ کرنے کی بھیانک سازش کی ہے۔
ڈاکٹر نعمان احمد نے اپنے مضمون میں قائد اعظم کے اس مشہور زمانہ بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کو ’’اقلیت‘‘ نہ کہا جائے اس لیے کہ مسلمان اپنے جداگانہ مذہب، جداگانہ تہذیب، جداگانہ تاریخ، جداگانہ قانون، جداگانہ کلچر، جداگانہ آرٹ غرض ہر اعتبار سے ہندوئوں سے مختلف قوم ہیں۔ ڈاکٹر نعمان نے لکھا ہے کہ تحریک پاکستان کے زمانے میں برصغیر کے تمام لوگ دو قومی نظریے کی اس تعبیر سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ علما، کانگریس کے رہنمائوں اور غفار خان کو مذکورہ بالا تعبیر سے اختلاف تھا۔
پاکستان کے سازشی سیکولر، لبرل کمیونسٹ یا سابق کمیونسٹ عناصر ویسے تو جمہوریت، جمہوریت کرتے رہتے ہیں اور ’’اکثریت‘‘ کے اصول کی ’’پوجا‘‘ کرتے ہیں مگر جب نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریے کا سوال اُٹھتا ہے تو وہ جمہوریت اور اکثریت کے اصول کو بھول جاتے ہیں اور چند افراد کو اہمیت دینے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا خیال قائد اعظم کے خیال سے مختلف تھا۔ ڈاکٹر نعمان نے بھی یہاں اسی سازشی رویے سے کام لیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے دو قومی نظریے کے سلسلے میں قائداعظم ہی کی ’’تعبیر‘‘ کو ’’درست‘‘ قرار دیا۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان بن ہی نہیں سکتا تھا۔ بلاشبہ بعض علما نے کہا کہ قومیں مذہب سے نہیں ’’اوطان‘‘ سے بنتی ہیں مگر اقبال، محمد علی جناح اور خود علما کی اکثریت نے اس خیال کو رد کردیا اور کہا کہ مسلمانوں کا تشخص زمین، زبان اور نسل نہیں ہے کلمہ طیبہ ہے۔ مولانا آزاد کانگریس کے رہنما تھے اور وہ ایک قومی نظریے کے قائل تھے مگر برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے مولانا ابوالکلام آزاد کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ اس سلسلے میں عبدالغفار خان کی کوئی اوقات ہی نہیں تھی۔ انہیں پاکستان اور اس کے نظریے سے گہری نفرت تھی اس لیے انہوں نے پاکستان میں دفن تک ہونا پسند نہ کیا۔ مگر ڈاکٹر نعمان احمد کو یہ حقائق نظر نہیں آئے۔ انہیں نظر آیا تو یہ کہ ایک حقیر اقلیت کو پاکستان کی مذہبی بنیاد سے اتفاق نہ تھا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں مذہبی جماعتیں کامیاب نہیں ہوتیں تو پاکستان کے سیکولر، لبرل، کمیونسٹ اور سابق کمیونسٹ بغلیں بجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت نے نواز لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور تحریک انصاف جیسی سیکولر، لبرل اور غیر مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیا۔ لیکن جب 1946ء کے انتخابات میں مسلم اکثریتی صوبوں کے عوام کی عظیم اکثریت دو قومی نظریے اور پاکستان کے حق میں ووٹ دیتی ہے تو سیکولر، لبرل، کمیونسٹ اور سابق کمیونسٹ ’’اکثریت‘‘ کے اصول کو نظر انداز کرکے کہتے ہیں کہ ہمیں ان ’’چند علما‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور غفار خان کی طرف بھی دیکھنا چاہیے کیوں کہ ان لوگوں کو دو قومی نظریے سے اتفاق نہیں تھا۔ یہ رویہ شرمناک، ہولناک، دانش ورانہ بے حیائی، علمی لفنگے پن اور پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے خلاف کھلی سازش کے سوا کچھ نہیں۔
ڈاکٹر نعمان نے قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو ’’جامع قوم پرستی‘‘ یا Composite Nationalism کی ایک مثال قرار دیا ہے۔ کیوں کہ اس تقریر میں قائد اعظم نے کہا تھا پاکستان میں مسلمان مسجد، ہندو مندر اور عیسائی اپنے گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہوں گے۔ قائد اعظم کا سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو ایک لبرل مورخ تھا مگر اس کے باوجود اس نے لکھا ہے کہ قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کے الفاظ تو جناح کے تھے مگر اس کی روح رسول اکرمؐ کے خطبۂ حجتہ الوداع سے آئی تھی مگر ڈاکٹر نعمان احمد کو یہ تقریر صرف جامع یا مشترکہ قومیت کا اشتہار نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہیکٹر بولیتھو اور ڈاکٹر نعمان احمد میں اس تقریر کی تعبیر کے حوالے سے جو فرق ہے اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب صرف ایک ہے۔ ہیکٹر بولیتھو ایماندار اور تاریخی حقائق کے ساتھ وفادار ہے۔ ڈاکٹر نعمان احمد بے ایمان اور تاریخی حقائق کا غدار ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے تمام سیکولر، لبرل، کمیونسٹ اور سابقہ کمیونسٹ دانش ور جھوٹے، بے ایمان اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے والے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نعمان احمد نے دو قومی نظریے پر ایک اور بڑا حملہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ دوقومی نظریے کے ’’کئی ناقدین‘‘ کے نزدیک دو قومی نظریے کے تحت آزادی کی جدوجہد مناسب نہ تھی۔ اس لیے کہ ’’بہت سے‘‘ مسائل ’’حل طلب‘‘ رہ گئے۔ مثلاً بہت سے مسلمان بھارت ہی میں رہ گئے۔ یہ مسلمان اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکثریت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ آپ ذرا ان فقروں پر غور کریں۔ ڈاکٹر صاحب کا اصرار ہے کہ دو قومی نظریے کے ’’کئی ناقدین‘‘ ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ دوقومی نظریے کے ’’کئی‘‘ نہیں صرف ’’ایک‘‘ ناقد ہے، سیکولر، لبرل، کمیونسٹ اور سابق کمیونسٹ ’’وائرس‘‘ ڈاکٹر نعمان کے بقول دو قومی نظریے کے تحت قیام پاکستان سے بہت سے مسائل حل طلب رہ گئے۔ لیکن مثال انہوں نے صرف ایک مسئلے کی دی ہے اور وہ یہ کہ بہت سے مسلمان بھارت میں ہندوئوں کے رحم و کرم پر رہ گئے۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اس لیے پیدا ہوا کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل حکمرانوں نے پاکستان کو اتنا مضبوط ہی نہ ہونے دیا کہ وہ بھارت کے مسلمانوں کے دفاع کے قابل ہوتا۔ بھارت کے مسلمانوں کا دفاع تو بڑی بات ہے پاکستان کا سیکولر اور لبرل طبقہ تو خود پاکستان کا دفاع نہ کرسکا چناں چہ 1971ء میں پاکستان آدھا رہ گیا۔