تعمیراتی صنعت کے لیے مراعات

589

وزیرا عظم عمران خان نے ملک میں صنعتوں کے فروغ کے لیے پہلے قدم کے طورپر تعمیراتی صنعت کے لیے مراعات کا اعلان کیا ہے ۔انہوں نے تعمیراتی شعبے کوصنعت کو درجہ دیتے ہوئے اس کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے اورفکسڈٹیکس کا اعلان کیا ۔ یہ بات خوش آئندہے کہ وفاقی حکومت کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ ملک کی ترقی کی شرح کم سے کم ہوتی جارہی ہے ۔ تاہم حکومت کو اس کے لیے دیگر صنعتوںکے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے پر توجہ دینی ہوگی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے تعمیراتی شعبہ کے لیے مراعات کا جو اعلان کیا ہے ، عملی طور پر اس کا اطلاق پورے ملک کے ساتھ کراچی پر بوجوہ نہیں ہوپائے گا ۔ کراچی میں گزشتہ تین برسوں سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر اداروں نے تباہی مچا کر رکھ دی ہے ۔ پہلے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کی خوب سرپرستی کی ۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اور متحدہ قومی موومنٹ کی بلدیاتی حکومت نے چائنا کٹنگ کے ذریعے کراچی کے فٹ پاتھ اور پارک بھی ختم کردیے ۔ چائنا کٹنگ کرنے والوں اور غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی البتہ ان لوگوں کی ضرور شامت آگئی جنہوں نے قانونی اور باقاعدہ لیز پلاٹوں پر زاید تعمیرات یا ایک منزل زاید تعمیر کرڈالی ۔ چائنا کٹنگ والے اور غیر قانونی تعمیرات والے چونکہ کسی قاعدے اور قانون کے زمرے میں آتے ہی نہیں، اس لیے ان سے پوچھ گچھ کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے تاہم قانونی پلاٹ رکھنے والوں پر ہر ایک نے اپنی چھری تیز کررکھی ہے ۔ سپریم کورٹ کے سامنے بھی اس سلسلے میں کبھی درست تصویر پیش نہیں کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ غیر قانونی تعمیرات گرادی جائیں تو اصولی طور پر ان لوگوں کے خلاف سب سے پہلے کارروائی کی جانی چاہیے تھی جنہوں نے رفاہی پلاٹوں ، پارکوں ، فٹ پاتھوں اور سرکاری زمین پر قبضے کیے ہوئے ہیں ۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہو یا بلدیہ ، کبھی بھی ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے ، کیوں کہ ایسا کرنے میں شریک ملزمان میں ان کا بھی نام آتا ہے البتہ وہ قانونی پلاٹ پر تعمیرات کرنے والوں کے گھر گرانے ضرور پہنچ جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے کراچی میں تعمیرات کا شعبہ گزشتہ تین برس سے بالکل انجماد کا شکار ہوکر رہ گیا ہے ۔ کراچی میں تعمیراتی سرگرمیاں منجمد ہونے کا نتیجہ پورے ملک کی معاشی اور روزگار کی صورتحال پر بھی پڑا ہے ۔ ہم سپریم کورٹ سے بھی التماس کریں گے کہ وہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ہدایت کرے کہ وہ سب سے پہلے رفاہی پلاٹوں ، پارکوں ، فٹ پاتھوں اور سرکاری زمین پر قبضے کی تفصیلات پیش کرے اور انہیں خالی کروائے ۔ اس سلسلے میں یہ خیال ضرور رکھا جائے کہ جن لوگوں نے فلیٹ یا پورشن خرید رکھے ہیں ، انہیں اس کی ادائیگی کی جائے کیوں کہ ان جائیدادوں کو خریدنے میں ان کا اس طرح کا کوئی قصور نہیں ہے کہ انہوں نے یہ جائیدادیں خریدنے کے لیے پہلے سرکاری اداروں سے این او سی لیا تھا اور خریدنے کے بعد بھی دوبارہ اسے رجسٹر کروایا ہے ۔ وہ رہائشی پلاٹ جو ماسٹر پلان میں رہائشی پلاٹ ہی ہیں اور باقاعدہ لیز ہیں اور ان پر زاید تعمیرات کردی گئی ہیں ، بہتر ہوگا کہ انہیں جرمانہ لے کر ریگولرائز کردیا جائے ۔ اس طرح حکومت کو ایک خطیر رقم بھی حاصل ہوگی اور دوسری جانب ملک میں معیشت کا پہیہ بھی دوبارہ چل پڑے گا ۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت کو بھی خصوصی دلچسپی لینی چاہیے کہ ان ہی کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ اگر صوبائی حکومت اس سلسلے میں کوئی قانون سازی کرلے اور اسے باقاعدہ صوبائی اسمبلی سے منظور کروالے ، تو اس سے یہ مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا اور اس سے عدالت عظمیٰ کا کام بھی ہلکا ہوگا ۔ یہی کام حال ہی میں ہی عدالت عظمیٰ نے بنی گالہ کی پوری آبادی کو ریگولرائز کرکے کیا ہے ۔ بنی گالہ کی مذکورہ غیر قانونی بستی میں وزیرا عظم عمران خان کا غیر قانونی گھر بھی تھا جسے اب ریگولرائز کردیا گیا ہے ۔ اسی طرح شاہراہ دستور پر کھڑی بلند و بالا عمارتوں کو بھی ریگولرائز کردیا گیا ہے ۔ اگر کراچی میں بھی یہی کچھ کردیا جائے تو یہاں کے لوگوں کا یہ شکوہ بھی ختم ہوجائے گا کہ حکمرانوں کے پاس کراچی کے لیے الگ اصول ہیں اور بقیہ پاکستان کے لیے دوسرے اصول ۔ ہم وزیر اعظم عمران خان نیازی سے بھی یہی درخواست کریں گے کہ وہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے کراچی میں معاشی ترقی کا پہیہ گھمانے میں ذاتی دلچسپی لیں ۔کراچی کو اب تک پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے ۔ تعمیراتی صنعت کے لیے مراعات کے ذریعے عمران خان ’’نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم‘‘ کا اپنا منصوبہ بھی آگے بڑھا سکیں گے۔ جہاں تک تعمیراتی صنعت کا تعلق ہے تو یہ صرف ایک صنعت نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے کئی صنعتوں کے پہیے چلتے ہیں، اینٹ گارے سے لے کر سیمنٹ اور فولاد کے کارخانوں تک۔