تقریر یا بادشاہ کا قہقہہ

1258

صاحبو! کورونا کی وسعتوں کو دیکھیں تو شطرنج کی بساط اور اس کے بنانے والے کی فرمائش یاد آجاتی ہے۔ جس نے محض اتنی سی فرمائش کی تھی کہ مجھے شطرنج کے ایک خانے میں ایک اشرفی، دوسرے میں دو، تیسرے میں چار، چوتھے میں آٹھ، پانچویں میں سولہ، چھٹے میں بتیس اور اسی طرح دگنی اشرفیاں عنایت فرما دیجیے۔ بادشاہ ہنسا ’’بس اتنی سی فرمائش! پوری کی جائے‘‘۔ تھوڑی ہی دیر بعد وزیر ہا نپتا ہوا حاضر ہوگیا ’’بادشاہ سلامت پورا خزانہ بھی انعام میں دے دیا جائے تب بھی یہ فرمائش پوری نہیں ہوسکتی‘‘۔ کورونا بھی دوچار کی رفتار سے پھیلا لیکن پھر اس کی وسعتیں، پوری دنیا لپیٹ میں آگئی۔ عالمی نقشے کو دیکھیں، اس پر بھی ماسک چڑھا ہوا ہے۔
ہم وزیراعظم عمران خان کے کورونا فنڈ پر لکھنا چاہ رہے تھے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک حکایت سن لیجیے۔ ایک سال جنگل میں سخت سردی پڑی اتنی کہ روزانہ دوچار بھیڑیں مرنے لگیں۔ جنگل کے بادشاہ نے بھیڑوں کو اکٹھا کرکے کہا ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے لیے اون کی گرم شالیں بنائیں گے تاکہ اس سردی میں تم محفوظ رہ سکو‘‘۔ بزرگ بھیڑ نے پوچھا ’’مگر بادشاہ سلامت اس کے لیے آپ اون کہاں سے لائیں گے‘‘۔ بادشاہ نے تمام بھیڑوں پر نظر ڈالی اور زور سے قہقہہ لگایا۔ کورونا فنڈ کی یہی حقیقت ہے۔ اس فنڈ کا بھی وہی حشر ہوگا جو ڈیم فنڈ، سیلاب فنڈ اور نجانے کس کس فنڈ کا ہوچکا ہے۔ کل ہم ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ وزیراعظم آن لائن تھے۔ لوگ لاکھوں کروڑوں روپے فنڈ میں دینے کا اعلان کررہے تھے۔ پاکستانیوں کو جب تک دھوکے اور کھوتے کا پتا چلتا ہے وہ اسے کھا چکے ہوتے ہیں۔ ان جمہوری حکومتوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ شکلیں بدل جاتی ہیں لیکن جو بھی آتا ہے عوام کا پیٹ بھرنے والا نہیں، کھلانے والا نہیں کھانے والا ہوتا ہے۔ یہ حکمران ہیں یا عمر قید کی سزا، یکساں دن یکساں راتیں، سب ایک جیسے۔ عوام حکمرانوں کی طاقت ہیں لیکن حکمران عوام کی کمزوری ہیں۔ جمہوریت نام ہی اس غلط فہمی کا ہے کہ ایک حکومت دوسری سے بہتر ہے۔ جب سے لاک ڈائون کا سلسلہ شروع ہوا تمام ٹی وی چینلز اور عوام کی اکثریت حکومت سے امداد اور ریلیف کا تقاضا کررہے تھے۔ امداد دینے کے بجائے حکومت نے عوام کو کورونا فنڈ کے کام پر لگادیا۔ ایک بچہ ہر وقت انگوٹھا چوستا رہتا تھا۔ والدین نے بہت کوشش کی لیکن چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ ایک دن والدین نے اسے ڈھیلی نیکر پہنادی۔ مسئلہ حل۔ وزیراعظم اس گرل فرینڈ کی طرح ہیں جس کا محبوب اسے بے روزگاری کا احوال سناتے ہوئے کہہ رہا ہو کہ جیب میں ایک ٹکا نہیں لیکن گرل فریند پھر بھی ایزی لوڈ کا مطالبہ کر دے۔
وزیر اعظم عمران خان کی تقریر بہت مایوس کن تھی۔ تقریر سنی تو ایک خاتون بو لیں ’’سمجھ میں نہیں آتا بچوں کی بستر پر سوسو اور وزیراعظم کی تقریر پر کیسے قابو پایا جائے‘‘۔ تقریر سننے کے بعد عوام کی اکثریت کی حالت اس عورت جیسی تھی جو ایک گھنٹہ محنت کرکے بچے کو سلائے اور اگلے ہی لمحے شوہر کی فلک شگاف چھینک پر وہ جاگ پڑے۔ چھینک پر ایک واقعہ سن لیجیے۔ ایک فقیر بہت دیر سے بھیک مانگ رہا تھا لیکن خاتون دینے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ فقیر بولا بیگم صاحبہ جلدی سے دس کا نوٹ دے دیجیے مجھے چھینک آرہی ہے۔ خاتون نے جلدی سے پرس کھولااور بیس روپے دے دیے۔ فقیر نے بیس روپے ہاتھ میں لیے، خوفزدہ بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا ’’ہر چھینک کورونا ہو ضروری تو نہیں‘‘۔
وزیراعظم کی تقریر کا ہم سنجیدہ تجزیہ کرنا چاہ رہے تھے لیکن کیا کریں لطیفوں پر لطیفے یاد آتے چلے جارہے ہیں۔ وزیراعظم کی تقریر سے قوم کو بڑی امیدیں تھیں۔ خیال تھا وزیراعظم عوام کی مدد کا اعلان کریں گے، کوئی اچھا سا ریلیف پیکیج دیں گے لیکن حشر چوک میں بیٹھے ان مزدوروں اور فقیروں جیسا ہوا جو آتے جاتے لوگوں کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں انہیں علاقے کا چودھری اس طرف آتا نظر آیا۔ سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب سب کا کام ہوجائے گا۔ چودھری نے چوک میں پہنچ کر ایک اونچی جگہ ڈھونڈی اور سب سے بڑی چادر بچھا کر خود ما نگنا شروع کردیا۔ دیکھیں اب کورونا وائرس کے خلاف وزیراعظم اگلی تقریر کب تک تیار کرتے ہیں۔ ویسے اس وقت اگر نواز شریف برسر اقتدار ہوتے اور عمران خان کنٹینر پر تو تقریر میں یہ ضرور کہتے ہماری حکومت ہوتی تو آج ہم اٹلی کو قرضہ دے رہے ہوتے۔ خبریں آرہی ہیں کہ چائنا سے اتنے لاکھ ماسک آگئے ہیں۔ فائدہ۔ پاکستانی اول تو ماسک پہنتے ہی نہیں ہیں اور اگر پہن بھی لیں تو بات کرتے وقت منہ سے ہٹا دیتے ہیں۔ کورونا نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ دیہاتوں میں پہلے کوئی بیرون ملک سے آتا تھا تو پورا گائوں اس سے ملنے آتا تھا۔ اب فون کرکے پولیس کو مطلع کیا جاتا ہے۔ ’’اک ھور آیا جے باہروں‘‘۔
گزشتہ دنوں ہمارا انسانی رشتوں کی بے حسی سے سابقہ رہا۔ بے حس رشتوں کو جانور بنتے دیکھا۔ لیکن انسانوں کی امداد کے لیے درندوں کی فوج، ٹائیگر فورس۔۔ عوام کورونا فنڈ میں چندہ دیںگے، اربوں روپے جمع ہوںگے، ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا، اشیا خریدی جائیں گی، ٹائیگر فورس تشکیل دی جائے گی، ٹائیگر فورس عوام میں امدادی اشیا تقسیم کرے گی تب تک کورونا وائرس انتظار کرتا رہے گا۔ شنید ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایسی دوا ایجاد کرلی ہے کہ جسم پر مل لیں تو کورونا کاٹ نہیں سکتا۔ کورونا آپ سے دور‘ رہنے پر مجبور۔ کورونا کا ایک فائدہ اور ہوا ہے وزیراعظم قوم کو لاک ڈائون اور کرفیو کا فرق سمجھانے میں لگے رہے ڈالر ایک سو پینسٹھ پر آگیا۔ کسی نے نوٹس بھی نہیں لیا۔ کورونا سے سب سے زیادہ فائدہ گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کو ہوا ہے۔ مستقل چھٹیوں پر چلی گئی ہیں۔ اب خواتین کو پتا چلا کہ جھاڑو دیتے وقت آگے بڑھا جاتا ہے اور پوجا دیتے وقت پیچھے۔
وہ خواتین جو شوہروں سے شاکی رہتی تھیں کہ گھر پر ٹائم نہیں دیتے اب انہیں بھی آرام آگیا ہوگا۔ ایک دوست کا فون آیا۔ بولے ’’لاک ڈائون کی وجہ سے گھر میں بیٹھا ہوں۔ گھر ٹرین جیسا لگنے لگا ہے۔ واش روم جائو پھر سیٹ پر آکر لیٹ جائو‘‘۔ ہم نے پوچھا بھابھی کیا کررہی ہیں؟ بولے ’’بار بار میرے قریب سے گزرتی ہے تو اونچی آواز میں کہتی ہے ’’اللہ بچائے اس آفت سے‘‘۔ ہم نے کہا ’’لاک ڈائون میں فالتو بیٹھنے سے بہتر ہے کوئی کام کر لو‘‘ بولے ’’کام کرتو رہا ہوں تم بھی سن لو۔ تحقیقی کام ہے شاید تمہارے کام آجائے۔ سنو غور سے سنو تین روپے والی ماچس میں 42تیلیاں ہوتی ہیں۔ پنکھا بند کرو تو بند ہونے میں ایک منٹ دس سیکنڈ لیتا ہے۔ کنگھے میں بیس موٹی اور چا لیس باریک ڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ ٹک بسکٹ کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس میں ستائیس سوراخ ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق غلط ہے۔ میں نے خود گنے ہیں انتیس سوراخ ہوتے ہیں۔ اچھا یار فون بند کرتا ہوں۔ میں چھت پر جارہا ہوں۔ ابھی ابھی اعلان ہوا ہے ہیلی کاپٹروں سے اسپرے کیا جارہا ہے سب گھروں میں رہیں‘‘۔ جن کی شادیاں لاک ڈائون کی وجہ سے رک گئی ہیں انہیں بھی سوچنے کا وقت مل گیا ہے۔ لاک ڈائون کا سوچتے ہیں تو حیرت ہوتی ہیں وہ بیچارے کیا کررہے ہوں گے جن کا موبائل ان دنوں میں خراب ہوگیا ہوگا۔ کورونا فنڈ سے جو مفت کی دیگیں بنیں گی ان کے بارے میں ٹائیگر فورس کو ہدایت کی جائے گی ’’اِس کو دے دو، اُس کو دے دو اور دیکھو تم نے بھی کچھ کھایا یا نہیں کھایا‘‘۔
کورونا وائرس کی ویکسین تا حال نہیں بن سکی۔ دنیا پاکستانی پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھنے والے ان طالب علموں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے جن کے 1100 میں سے 1080 نمبر۔ کورونا کی ویکسین بنانے سے پہلے اس وائرس کی ویکسین بنانا ضروری ہے جو پاکستانیوں کو گھروں میں ٹک کر بیٹھنے نہیں دے رہا۔ انہیں کون سمجھائے کہ بھیڑ میں مت جائو ورنہ بھاڑ میں جانا پڑ جائے گا۔ چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں ورنہ قبر میں پڑے مردے اور زمین کی سطح پر موجود لوگوں کے درمیان بھی چھ فٹ کا ہی فاصلہ ہوتا ہے‘‘۔ گھر میں رہنے کا کوئی آسان سا نسخہ: ’’وہی پرانی ترکیب۔ چار چمچ جمال گھوٹا‘‘۔