ایک سچا مشورہ

623

ایک زمانہ تھا اور وہ وقت بھی بہت اچھا تھا‘ جب ملک میں اردو اخبارات صحافت کر رہے تھے ایک دوسرے کے حریف تھے اور نہ حکومتیں بنانے اور گرانے کے کھیل میں شریک تھے‘ ہاں البتہ نظریاتی صحافت تھی‘ یہ ایک واضح فرق تھا‘ مشرق‘ پاکستان ٹائم جیسے اخبارات نیشنل پریس ٹرسٹ کا حصہ بنے‘ امروز بائیں بازو کا اخبار تھا‘ نوائے وقت اور جسارت دائیں بازو اور نظریہ پاکستان کے فروغ کے لیے اپنی پہچان رکھتے تھے آئین‘ افریشاء‘ زندگی‘ چٹان جیسے ہفت روزہ بہت مقبول تھے‘ بادبان بھی کم نہیں تھا‘ مختر سی بات کہ اس وقت ملک میں صحافت پر نظریاتی رنگ چڑھا ہوا تھا‘ ایک دوسرے کا مقابلہ بھی تھا مگر لحاظ بھی تھا‘ پھر صحافت میں پیسہ بھی آگیا۔
یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا‘ اسی زمانے میں جنگ لاہور سے شائع ہونا شروع ہوا‘ تکبیر جیسا ہفت روزہ بھی میدان میں آیا‘ اس کے بعد ایک نیا دور آیا جس میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار بند ہوگئے یا انہیں نج کاری کی آگ میں جھونک دیا گیا‘ بس یہی وقت ملک میں صحافت کے لیے برے وقت کا آغاز تھا‘ اس کے بعد تو ملک میں ڈیکلریشن کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ سب کی نظر نیوز پرنٹ کے کوٹے پر تھی یہ کوٹا مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا تھا‘ کون فروخت کرتا تھا اور کون نہیں کرتا تھا یہ بحث اب رہنے ہی دیں تو اچھا ہے۔ پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی‘ ۱۹۵۰ میں قائم ہوئی‘ تین سال بعد پبلشروں کے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں ضم کرکے اسے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کا نام دیا گیا‘ اس کی سربراہی حمید نظامی، میر خلیل الرحمن، میاں افتخار الدین، فخر ماتری، حامد محمود، یوسف ہارون، محمود اے ہارون، اے جی مرزا، قاضی محمد اکبر، منور ہدایت اللہ، کے ایم حامد اللہ، اخبار پاکستان آبزرور کے انوارالاسلام‘ سید حمید حسین نقوی اور تنویر طاہر جیسے بزرگ کرچکے ہیں‘ بعد میں ان کے جانشین بھی آئے‘ پاکستان نیوز پیپرس سوسائٹی بنیادی طور پر حمید نظامی، الطاف حسین، اور حامد محمود کی کوششوں کی وجہ سے قائم کی گئی تھی‘ آغاز میں اسے اہمیت نہیں ملی لیکن آج اس کی آواز اور شناخت ہے۔ یہ صحافت اور اخباری صنعت کی سائنس اور فن کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کرتی ہے۔
1981 میں، اے پی این ایس نے مختلف زمروں میں اشتہاری ایوارڈکا آغاز کیا جرنلسٹ ایوارڈ 1982 میں شروع ہوئے‘ ایڈیٹرز اور صحافیوں کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ، سوسائٹی نے ایوب خان کے ذریعے 1960 میں پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کے خلاف کام کیا جب تک کہ 1988 میں اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔ 1999 میں، اے پی این ایس نے پریس قوانین کا ایک مجموعہ تیار کیا جس میں پاکستان میں پریس کونسل کے قیام کا مسودہ، پرنٹنگ پریسوں کی رجسٹریشن، اخبارات آرڈیننس اور آزادی کے انفارمیشن ایکٹ کا مسودہ شامل تھا۔ آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے لوگوں کے مابین گہری بحث و مباحثے کے بعد، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور وزارت اطلاعات، حکومت پاکستان، پریس کونسل کے مسودوں اور پریسوں اور اخبارات کی رجسٹریشن کو حتمی شکل دی گئی اور اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ 2018 میں، آل پاکستان نیوز پیپرس سوسائٹی نے عدالت عظمیٰ سے ملکی پرنٹ میڈیا کے مسائل پر غور کرنے کی استدعا کی، سی پی این ای 1957 میں قائم ہوئی دوسری رائے یہ بھی ہے کہ اس گروپ کی بنیاد 1958 میں پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس اور نیوز پیپرز ایڈیٹرز کونسل آف پاکستان کے انضمام کے ذریعہ ہوئی‘ دونوں تنظیموں میں واضح فرق تھا مگر اب نہیں رہا‘ بے شمار نام ایسے ہیں جو اے پی این ایس کے بھی رکن ہیں اور سی پی این ای کے بھی‘ یہ ابہام دور ہونا چاہیے‘ خبر رساں ادارے کیوں اس تنظٖیم کے رکن بنائے گئے ہیں یہ معاملہ بھی نظر ثانی کا تقاضا کر رہا ہے کہ ہر ادارے کی اپنی ساخت ہے‘ ملکی صحافت آج سے نہیں‘ قیام پاکستان سے مشکلات کا شکار ہے‘ مشکل کیا ہے؟ یہ ہر دور میں مختلف شکل میں سامنے آتی رہی‘ حکومت کسی کی بھی رہی ہو‘ سب کی خواہش رہی کہ صحافت اس کی لونڈی بن کر رہے‘ حالیہ دنوں میں دو تکلیف دہ معاملے سامنے رہے‘ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری اور میر جاوید الرحمن کی موت‘ موت پر کسی کا بس نہیں ہے‘ انسان فانی ہے‘ ہر کسی نے موت کا مزہ چکھنا ہے‘ اللہ خاتم النبینؐ کے تمام پیروکار مرحومین کی مغفرت فرمائے‘ آمین‘ لیکن ملکی صحافت کس قدر کمزور ہے یہ کمزور کیوں ہے یہ ایک معما ہے مگر ایسا بھی نہیں اس کا حل نہیں ہے‘ حل ہے اگر کوئی اختیار کرنا چاہے‘ بس ایک کام کرنا ہوگا کہ عہدے کے لیے اصول قربان نہ کیے جائیں‘ جناب سید شاہد ہاشمی‘ بھی اے پی این ایس کے سیکرٹری فنانس رہے‘ عہدے کے لیے وہ اس کے پیچھے بھاگے اور نہ کسی کا پلو پکڑا‘ عزت سے ذمے داری ملی‘ اور وقار کے ساتھ ذمے داری نبھائی‘ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس پر فخر کرسکتے ہیں‘ اس تنظیم کو ایسے کم ہی لوگ ملیں گے‘ دونوں تنظیموں کی تاریخ ایک جانب‘ اب آخر میں صرف ایک بات کہ جس روز ملکی صحافت نے کاروبار اور مفادات سمیٹنے سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا تو اس روز کے بعد پھر کسی پبلشر اور کسی ایڈیٹر کو گرفتار کرنے کی جرأت کسی میں نہیں ہوگی۔