اٹھارسال سزا کے بعد با عزت بریا

1279

سندھ ہائی کورٹ نے مشہور ڈینیل پرل کیس کا فیصلہ 18 سال بعد سنادیا ہے ۔ اس فیصلے کے تحت تین ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت ختم کرکے سات سال قید اور بیس لاکھ جرمانے کی سزا سنائی ہے ۔ ڈینیل پرل کیس میں اتنے طویل عرصے کے بعد فیصلے نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان لگادیے ہیں ۔عمر شیخ سمیت چاروں ملزمان گزشتہ 18 برسوں سے قید میں تھے ۔ ان میں سے تین ملزمان کو بری کرنے کا مطلب یہی ہے کہ یہ بے گناہ تھے ۔ اگر اس کیس کا فیصلہ بروقت سنا دیا جاتا تو ان بے گناہوںکے 18 قیمتی برس یوں جیل میں نہ گزرتے ۔ اسی طرح عمر شیخ کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جو دن اور رات ملا کر ساڑھے تین برس میں مکمل ہوجاتی ۔ اب عمر شیخ نے جو یہ ساڑھے چودہ برس جیل میں زاید گزارے ہیں ، ان کا بھی ذمہ دار کون ہے ۔یہ ایک اصولی بات ہے کہ جو لوگ فیصلہ نہ سنائے جانے کے سبب جیل میں قید ہیں ، ان کی زندگی یوں قید میں گزرنے کے سبب سماجی طور پر جو انہیں نقصان پہنچتا ہے ، اس کی ذمہ داری ان سب پر عاید ہوتی ہے جو ملک میں عدالتی نظام کو درست کرنے کے پابند ہیں ۔ ان میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے سربراہان کے علاوہ وزارت قانون اور صوبائی وزرائے اعلیٰ اور صدر و وزیر اعظم بھی برابر کے شریک ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں سے ملک میں ازخود نوٹس لینے کی ایک عجیب روایت چل پڑی ہے ۔ ہر بات پر ازخود نوٹس لے لیا جاتا ہے ، چاہے ا س کی اہمیت ہو یا نہ ہو اور پھر ان ازخود نوٹس کے جواب میں ملک کو پھر بھی کچھ حاصل نہیں ہوپاتا ۔ کورونا کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر ملزمان اور مجرمان کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کرنے شروع کردیے تھے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے اس ازخود نوٹس کا خود عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا پڑگیا ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ میں پی آئی اے میں وائس چیف آف ائر اسٹاف کی بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر تقرری کے خلاف کیس کی سماعت جاری تھی اور سندھ ہائی کورٹ نے وائس چیف آف ائر اسٹاف کو کام کرنے سے روک دیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے اس کیس کا ازخود نوٹس لیااور یوں وائس چیف آف ائر اسٹاف کو عملی طور پر ریلیف مل گیا ۔ ججوں نے اسپتالوں پر چھاپے تو مارنے شروع کردیے مگر ایک مرتبہ بھی عدالتی نظام کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی جو ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔یہ درست بات ہے کہ عمومی طور پر تحقیقاتی ایجنسیاں بروقت چالان پیش نہیں کرتی ہیں اور بوجوہ تاخیری حربے استعمال کرتی ہیں ۔ اسی طرح سرکاری پراسیکیوٹر بھی معاملات کو لٹکاتے ہیں مگر ان سب کی گوشمالی بھی ضروری ہے ۔ ڈینیل پرل کیس ہی کواگر مثال بنا لیا جائے اور اس فیصلے میں تاخیر کے ذمہ داران سے باز پرس کرکے ان کو سزا دے دی جائے تو اس طرح کی تاخیر کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے ۔ سماجی تنظیموں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں کام کریں اور ڈیٹا مرتب کریں کہ کون سی عدالتوںمیں کتنے کیس کب سے فیصل نہیں ہوئے ہیں ۔ یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ ماتحت عدالتوں میں ججوں کی خالی اسامیاں پُر ہی نہیں کی جاتی ہیں یا پھر یہ عدالتیں متعلقہ ججوں کی طویل چھٹیوں پر جانے کے سبب خالی پڑی ہوتی ہیں اور ان عدالتوں کو عارضی طور پر دیگر ججوں کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ عملی طور پر دیکھ بھال کرنے والے یہ جج ان خالی عدالتوں کے مقدمات کو محض تاریخیں دے کر ٹالتے رہتے ہیں اور یوں سائل برسوں اپنے مقدمے کا فیصلہ ہونے کا انتظا رکرتا رہتا ہے ۔ اس طرف بھی عدلیہ کے سربراہان کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بار کونسلوں کا اب تصور ایک بدمعاش گینگ کی صورت میں ابھرنے لگا ہے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ بار کونسلیں اپنی اس بھیانک تصویر کو در ست کرنے کی طرف توجہ دیں اور ایک پڑھے لکھے طبقے کی نمائندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے عدلیہ کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں ۔یہ بار کونسلوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ماہانہ اعداد و شمار جاری کریں کہ مذکورہ ایک ماہ میں کتنے مقدمات کی سماعت ہوئی اور کتنے مقدمات کا فیصلہ ہوا ۔ جن مقدمات کا فیصلہ کیا گیا ، وہ کب سے زیر سماعت تھے ۔ اگر یہ اعداد و شمار ہی جاری کرنے شروع کردیے جائیں تو بھی عدالتی نظام میں بہتری کا سفر شروع ہوسکتا ہے ۔ لیکن کیا وہ ایسا کریں گی ؟ویسے بھی کہا نہیں جاسکتا کہ ڈینیل پرل کیس اپنے منظقی انجام تک پہنچ گیا کہ ابھی سندھ ہائی کورٹ میں ہی اپیل کا موقع باقی ہے ۔ اس کے بھی سپریم کورٹ کی فل بنچ تک اپیل کے کئی مرحلے ہیں ، اس طرح سے اس مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے تک مزید 18 برس گزر سکتے ہیں ۔ ویسے بھی حکومت سندھ نے بری کیے گئے افراد کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں تین ماہ تک اپنی تحویل میں مزید رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسی طرح عمر شیخ کو بھی دی گئی سزا پوری ہونے بلکہ اس کی تین گنی سزا کاٹنے کے باوجود بھی رہا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک نظیر ہے کہ کسی کو سزا دینے یا بری کرنے کا عدلیہ کا فیصلہ حتمی نہیں ہوتا ، یہ حکومت کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے ۔ کسی بری کیے گئے شخص کو بھی حکومت رہا کرنے سے انکار کرسکتی ہے اور اگر ا س کا اپنا موڈ ہے تو کسی سزا یافتہ شخص کو بھی پیرول پر رہا کرسکتی ہے ۔ ایسے میں ملک میں انصاف کی صورتحال پر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جاسکتا ہے ۔