سندھ حکومت کے عوام دشمن اقدامات

760

سندھ میں لاک ڈاؤن ملک میں سب سے پہلے شروع ہوا تھا بلکہ احتیاط کے طور پر تعلیمی اداروں کی بندش تو فروری میں ہی شروع کردی گئی تھی ۔ اگر کورونا کے انکیوبیشن کا کوئی عرصہ ہوتا ہے تو وہ عرصہ کم ازکم سندھ کی حد تک پورا ہوچکا ہے ۔ سندھ میں پورے ملک کے مقابلے میں کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد ہر آنے والے دن میں گزشتہ روز کے مقابلے میں کم ہے اور سندھ میں کہیں بھی اب تک کورونا نے وبا کی صورت اختیار نہیں کی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود سندھ میں لاک ڈاؤن کی مدت سید مراد علی شاہ نے بڑھا کر 14 اپریل تک کردی ہے ۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس لاک ڈاؤن کو بتدریج نرم کیا جاتا اور پہلے مرحلے میں ہر قسم کے کاروبار اور مارکیٹوں کو شام تک ہی کھلنے کی اجازت دی جاتی ، حکومت سندھ نے اس لاک ڈاؤن میں مزید سختی کردی ہے ۔ حکومت کا سارا زور مساجد کی بندش تک ہے ۔ جمعہ کی نماز کو روکنے کی خاطر جمعہ کو دن بارہ بجے سے شام تین بجے تک لاک ڈاؤن میں کرفیوکی طرز کی سختی کرنے کا حکم سنادیا گیا ہے۔ کیا سید مراد علی شاہ کا یہ خیال ہے کورونا مساجد سے پھیلا ہے ۔ پاکستان میں کورونا کی تاریخ تو یہی ہے کہ اس میں مبتلا افراد کی اکثریت کا تعلق بیرون ملک سے آنے والے افراد پر مشتمل ہے تو اس میں مساجد یا باجماعت نمازوں کا کیا کردار ہے ۔ اب تک ملک میں کورونا کے نام پر 35 افراد کی موت ظاہر کی گئی ہے ۔ یعنی یومیہ ایک فرد پورے ملک میں کورونا کی وجہ سے جان سے گیا ہے۔ جس ملک میں مختلف امراض یا حادثات سے روزانہ پانچ ہزار افراد جان سے جاتے ہوں ، اس ملک میں یومیہ ایک فرد کی موت کسی وبا کی نشانی نہیں ہے ۔ اب تک کے معلوم اعداد و شمار کے مطابق ویسے بھی اب تک جو لوگ جان سے گئے ہیں ، وہ عمررسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ سرطان اور گردوں کے امراض جیسی سنگین بیماریوں میں پہلے سے مبتلا تھے ۔ انہیں اگر کورونا نہ بھی ہوتا ، تو ان کے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی ۔ جمعرات ہی کو جنگ کراچی میں تفصیلی خبر شایع ہوئی ہے کہ کراچی میں اب تک 9 افراد کو کورونا کی وجہ سے جاںبحق ہونے والا قرار دیا گیا ہے ، ان میں سے پہلا شخص 77 سالہ مرد تھا جسے پہلے سے ذیابطیس اور ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ سرطان جیسا موذی مرض تھا ، دوسرے شخص کی عمر 83 برس تھی اور اسے نمونیہ اور سانس کی بیماری پہلے سے تھی ، تیسرا شخص 70 سالہ تھا اور اسے بھی نمونیہ اور سانس کی بیماری تھی ، 63 سالہ مرنے والی خاتون کو دمہ اور سانس کی بیماری تھی ، 66 سالہ مرنے والا شخص پہلے سے ڈائیلاسز پر تھا، مرنے والے دیگر افراد بھی سانس کی بیماریوں میں پہلے سے مبتلا تھے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کورونا کی ہلاکت خیزی وہ نہیں ہے جتنی ظاہر کی جارہی ہے ۔ نہ تو اس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد اتنی ہے اور نہ اس سے صحت مند افراد کو اب تک کوئی خطرہ ہے ۔ ایسی صورت میں سندھ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کی مدت میں اضافہ اور پھر صرف اور صرف نماز جمعہ کو روکنے کے اقدامات پر کئی سوالیہ نشانات ہیں ۔ سندھ حکومت کی جانب سے کورونا کی روک تھام کے نام پر اب تک کیے جانے والے اقدامات عملی طور پر سندھ کے عوام کے لیے دشمن اقدامات ہی ثابت ہورہے ہیں اور اس سے صوبے میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔ اس ضمن میں تاجروں اور صنعتکاروں کے رہنماؤں نے سندھ حکومت سے ملاقات بھی کی ہے اور صنعتی یونٹوں کو فعال کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔ تاجروں نے سندھ کے حکمرانوں کیساتھ ملاقات میں واضح کیا ہے کہ مارکیٹوں اور دکانوںکی مسلسل بندش سے افراتفری پیدا ہونے کا خدشہ ہورہا ہے ۔ ان رہنماؤں نے بتایا ہے کہ مارکیٹوں کے جزوی کھلنے کی صورت میں ہی اشیاء کی ترسیل کا نظام بہتر ہونا ممکن ہو سکے گا۔ ان رہنماؤں نے یہ بھی تجویز پیش کی ہے کہ اگر مارکیٹوں کو مکمل کھولنا ممکن نہیں ہے تو پھر حکومت کو بازار کھولنے اور بند کرنے کا وقت طے کرنے پر غورکرنا چاہیے تاکہ یومیہ اجرت والے اور دیگر عملہ اپنی روزی حاصل کرسکے ۔ اس وقت حکومت نے صرف میڈیکل اسٹورز ،کریانے اور دودھ کی دکانوں کو کھولنے کی اجازت دی ہوئی ہے ، ان کے علاوہ بڑے سپر اسٹور کھلے ہوئے ہیں ۔ دیگر دکانوں کی بندش کی وجہ سے ان سپراسٹوروں پر لوگوں کا ہجوم ہے ۔ یہ خریدار ان سپراسٹوروں سے الیکٹرانک کی اشیاء سے لے کر کپڑے تک خرید رہے ہیں ۔ اس طرح سے حکومت نے چھوٹی دکانوں کا بزنس ان بڑے سپر اسٹوروں پر منتقل کردیا ہے جو ان دکانداروں کے معاشی قتل عام کے مترادف ہے ۔ حکومت سندھ نے کہیں پر بھی صحت و صفائی کے بنیادی اور اہم مسئلے پر توجہ نہیں دی ہے ۔ کراچی سمیت پورے صوبے میں کچرے کے ڈھیروں میں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ شہر کی اہم سڑکوں سے لے کر گلی کوچے تک گندے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر سندھ حکومت کی ساری توجہ کاروبار بند کرانے تک ہی ہے ۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کی ازحد دلچسپی اور سندھ حکومت کے غیر معمولی اقدامات بتار ہے ہیں کہ معاملہ کورونا نہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔ سندھ کے سماجی اور سیاسی رہنماؤں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ صوبے میں لوگوں کا معاشی اور سماجی قتل عام ہورہا ہے ، اس سے بچاؤ کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ہی وزیر داخلہ سندھ اور آئی جی صاحب پولیس کو بھی لگام دیں جو چھوٹے چھوٹے کھوکھوں سے بھی بھتا وصول کر رہے ہیں۔