مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو شہریت

492

دنیا بھر میں کورونا کے نام پر لاک ڈاؤن جاری ہے اور اس کے نام پر ہر طرف افراتفری کا سماں ہے ۔ بھارت بھی اس سے مبرا نہیں ہے بلکہ وہاں سے آنے والے وڈیو کلپ دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہاں پر لاک ڈاؤن کے نام پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رویہ متشدد ہے ۔ ایسے میں بھارتی وزیر اعظم مودی مسلسل ہندوتوا کے اپنے نظریے کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں ۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر کشمیریوں کو شہریت دینے کے عمل کا آغاز ان کو ڈومیسائل دینے کے اقدام سے شروع کردیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی مودی نے مقبوضہ وادی میں غیر کشمیریوں کو ملازمتیں دینے کا بھی حکم جاری کردیا ہے ۔ گزشتہ برس 5 اگست کو مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے جس عمل سے مقبوضہ وادی کو ہڑپ کرنے کے عمل کا آغاز کیا تھا ، یہ اس کا تسلسل ہے ۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں ہے ۔کورونا کے نام پر تو پوری دنیا میں اب لاک ڈاؤن کا عمل شروع ہوا ہے ۔ اس لاک ڈاؤن میں بھی حکومتیں اپنے شہریوں کو گھر پر راشن دے رہی ہیں ، انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا سے رابطے کی سہولت موجود ہے اور بیماری کی صورت میں فوری طبی سہولیات موجود ہیں ۔مقبوضہ وادی کے لوگ تو 5 اگست سے ہی لاک ڈاؤن کا شکار ہیں اور اتنے سخت لاک ڈاؤن کا کہ وہاں پر دوائیں تک ختم ہوچکی ہیں مگر وادی میں اس کی ترسیل کی اجازت نہیں ہے ۔ انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی رابطے منقطع ہیں اور خوراک کی ترسیل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔مودی کے اقدامات اتنے سخت ہیںکہ اس نے بھارتی رکن پارلیمنٹ تک کو مقبوضہ وادی میں داخلے کی اجازت نہیں دی ۔مودی نے یہ سب دھڑلے سے اس حقیقت کے باوجود کیا کہ مسئلہ کشمیر ابھی تک اقوام متحدہ میں موجود ہے اور یہ متنازع ہے ۔ اس پر سب سے زیادہ افسوسناک معاملہ پاکستان کا ہے جس نے مودی کے ہر قدم پر خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملی طور پر مودی کی مدد کی ۔ اگر حکومت پاکستان 5 اگست ہی کو مودی کے اقدام پر ایکشن لیتی اور اسے اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا میں اجاگر کرتی کہ مودی کے اقدامات اقوام متحدہ کی منظور کردہ متفقہ قراردوں کے یکسر خلاف ہیں اور اس پر دنیا کو ایکشن لینا چاہیے تو آج معاملات یہاں تک نہیں پہنچتے ۔