حکومت کورونا مریضوں کا ڈیٹا فراہم کرے‘ پبلک ایڈ جماعت اسلامی

312

کراچی( اسٹاف رپورٹر)پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کی سینٹرل کیبنٹ کا کوروناوائرس کے سلسلے میں امدادی کاموں کا جائزہ لینے ہنگامی اجلاس سربراہ پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈووکیٹ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ جس میں مرکزی شعبہ جات کے صدور اور پبلک ایڈ کے ذمے داران نے اب تک کیے جانے والے امدادی کاموں کی رپورٹ پیش کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیف الدین ایڈووکیٹ نے پبلک ایڈ کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے مرکزی اور سندھ حکومت کو 7 نکاتی مطالباتی چارٹر پیش کیا۔اجلاس میں جنرل سیکرٹری نجیب ایوبی، نائب صدور نصیر حسینی، عمران شاہد اور شعبہ صحت کے ابن الحسن ہاشمی نے اپنے شعبہ جات کی تجاویز سے آگاہ کیا۔جس میں سندھ حکومت اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات سے بچنے کے لیے دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیاد پر مستحقین میں راشن کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے دعوئوں سے آگے نکلتے ہوئے حقیقی کام کریں۔لاک ڈاؤن کو تقریباً2 ہفتے ہو چکے ہیں مگر راشن پہنچانے کا کام صرف منصوبہ بندی اور اشتہار بازی تک محدود ہے۔اس اہم ترین ذمے داری کو سماجی تنظیمیں ایک حد تک ہی کرسکتی ہیں اور کر بھی رہی ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومتیں اپنے حصے کا کام دوسروں پر منتقل کرنا شروع کر دیں سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ بتائے کہ راشن کی تقسیم کس طرح ممکن بنائے گی۔انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن نے ہر قسم کے کاروبار کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے مارکیٹوں کی مکمل بندش سے لوٹ مار کی نوبت آسکتی ہے۔ راشن کا خوفناک بحران تیار کھڑا ہے۔ مگر حکومت محض مفروضوں کی بنیاد پر خوف کی فضا پیدا کرکے حالات کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کے کاروبار اور مارکیٹوں کو کھولا جانا چاہیے تاکہ زندگی کا پہیہ رواں رہ سکے۔مساجد پر عاید پابندی بلاجواز ہے۔ غلط اعداد وشمار دکھا کر مساجد سے خوفزدہ کرنے کی پالیسی نہایت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ مساجد سے ابھی تک کسی وائرس کے پھیلنے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ میڈیا کو بھی پابند کیا جاکہ وہ ہر قسم کی غیر مصدقہ اطلاعات اور مبصرین کے ذریعے مصنوعی فضا نہ بنائے۔ پیمرا کو اپنے قوانین پر عمل درآمد کا پابند بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی جان کی حرمت کا خیال رکھا جانا ضروری ہے، انتقال کر جانے والے افراد کا کفن دفن اور تدفین کوئی معاملہ نہیں، مرے ہوئے آدمی سے کوئی وائرس نہیں نکلتا اور نہ ہی اس پروپیگنڈے میں کوئی جان ہے۔ مساجد کو قرنطینہ بنانے کی باتیں بھی مذموم مقاصد کے لیے اور کسی اور کو خوش رکھنے کے لیے کی جارہی ہیں۔اجلاس میں عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ وائرس کے نتیجے میں زیر علاج مریضوں کے کوائف دفتر جماعت اسلامی میں جمع کرائیں تاکہ ان کو بھرپور طریقے سے مدد فراہم کی جاسکے۔پبلک ایڈ جماعت اسلامی کی ٹیمیں اس سلسلے میں صفائی ستھرائی اسپرے اور میڈیکل سامان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنے وسائل کو بروئے کار لارہے ہیں۔اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت مریضوں کے اعداد شماراسپتال کے نام کے ساتھ بتائے تاکہ اندازہ لگایا جائے کہ اصل صورتحال کیا ہے؟اب تک میڈیا سے بھی یہ اہم معلومات چھپائی جارہی ہیں۔لگتا ہے کہ حکومت اپنی مرضی کے کوائف چھاپ کر کسی کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ اجلاس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ گنجان آبادی والے علاقوں اور غریبوں کی بستیوں میں ایک بھی کیس رجسٹر نہیں ہوا؟ گلشن اقبال، کلفٹن، ڈیفنس سوسائٹی سے ہی اطلاعات کیوں مل رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لاک ڈاؤن سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مگر غلط شماریات کے ذریعے خوف کی فضا کو بڑھایا جارہا ہے۔میڈیکل اسٹاف کو اب تک کیوں حفاظتی سامان فراہم نہیں کیا گیا؟ جبکہ چین سے بڑی تعداد میں سامان کراچی پہنچ چکا ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنا ضروری سامان سرکاری اسپتالوں میں موجود ہی رہنا چاہیے تھا۔سیف الدین ایڈووکیٹ نے پبلک ایڈ جماعت اسلامی کے کارکنان کی انتھک محنت کو سراہتے ہوئے مخیر حضرات سے اپیل کی کی وہ جماعت اسلامی کے راشن پیکج کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالیں کیونکہ آنے والے ایام مزید پریشانی سے دوچار کرنے والے ہیں۔