آہ حفیظ الرحمن احسن مرحوم

965

ممتاز ادیب، شاعر، دانشور اور سہ ماہی ادبی جریدے ’’سیارہ‘‘ کے مدیر محترم حفیظ الرحمن احسن طویل علالت کے بعد نہایت خاموشی سے ملک عدم کو سدھار گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ ہر ذی نفس کی منزل یہی ہے۔
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
احسن مرحوم سے شناسائی کا عرصہ کم و بیش نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے ابتدا اس زمانے سے ہوئی جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ قلعہ گجر سنگھ لاہور کی مسجد مبارک میں ہفتہ وار درس قرآن و حدیث دیا کرتے تھے۔ اس درس نے اتنی شہرت حاصل کی تھی کہ لوگ دور دور سے اس میں شرکت کے لیے کھینچے آتے تھے، احسن صاحب سے تعارف اس طرح ہوا کہ وہ درس کی ریکارڈنگ کے لیے سیدصاحب کی میز کے قریب بیٹھتے تھے ان کا ٹیپ ریکارڈر میز پر رکھا رہتا تھا ایک ٹیپ بھرجاتی تو وہ ٹیپ ریکارڈر کھول کر دوسری ٹیپ لگا دیتے تھے۔ ہم ان دنوں ہفتہ وار ایشیا سے وابستہ تھے۔ درس کی رپورٹنگ کرنا تو ہماری ذمے داری نہ تھی اور نہ ہی یہ اہلیت تھی کہ سید صاحب کے درس کو قلمبند کرسکتے۔ البتہ درس کے بعد سوال و جواب کا ایک مختصر سا سیشن ہوتا تھا۔ سامعین کو اجازت تھی کہ وہ درسِ حاضرہ کے بعض نکات سمجھ میں نہ آئے ہوں تو سوال کے ذریعے وضاحت طلب کرسکتے ہیں۔ سوال زبانی کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کاغذ پر لکھ کر سوال کا آنا ضروری تھا۔ درس کے منتظمین سوالوں کی پرچیاں جمع کر لیتے اور جو پرچی مناسب سمجھتے سید مودودیؒ کی خدمت میں پیش کردیتے اور سید صاحب اس کا مختصر جواب عنایت فرما دیتے۔ بعض لوگ درس سے ہٹ کر سیاستِ حاضرہ پر بھی سوال کردیتے تھے۔ اگر افادئہ عام کے لیے ضروری ہوتا تو وہ پرچی بھی سید صاحب کی خدمت میں پیش کردی جاتی اور وہ جو جواب دیتے اگلے دن اخبارات کی زینت بن جاتا کہ درس میں خفیہ والوں کے علاوہ اخباری نمائندے بھی موجود ہوتے تھے۔ خیر یہ بات تو ضمناً آگئی۔ ذکر ہورہا تھا درس کی ریکارڈنگ کا جو حفیظ الرحمن احسن بڑی محنت اور توجہ سے انجام دے رہے تھے۔ ہمارا ان سے تعارف ہوا اور عام معنوں میں شناسائی ہوگئی۔ درس قرآن کو تو مرتب کرنے کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے سید صاحب کی ’’تفہیم القرآن‘‘ موجود تھی البتہ ان کی حدیث کے افادئہ عام کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو احسن صاحب نے محسوس کیا اور درس حدیث کو ریکارڈنگ کے ذریعے مرتب کرکے ہفت روزہ ’’آئین‘‘ میں شائع کرنا شروع کردیا جس کو مقبول مقام حاصل ہوا۔ سید صاحب درس حدیث، احادیث کے مجموعے ’’المشکوٰۃ‘‘ سے دیتے تھے۔ چناں چہ رمضان کے دنوں میں یا اس سے پہلے آپ نے المشکوٰۃ کے باب ’’کتاب الصوم‘‘ کا سلسلہ وار درس دیا کتاب الصوم میں رمضان المبارک کی اہمیت، رمضان کے روزوں کی فرضیت، نفل روزوں کی تفصیل، لیلتہ القدر کا ذکر اور اعتکاف کے بارے میں سنت نبوی کی تفصیلات موجود ہیں۔ جب یہ دروس مکمل ہوئے تو احسن صاحب نے سوچا کہ کتاب الصوم کے دروس کو کتابی شکل میں شائع ہونا چاہیے۔ یہ دروس ’’آئین‘‘ میں تو ہفتہ وار شائع ہوتے رہے تھے اور انہیں کتاب کی شکل دینا مشکل نہ تھا۔ لیکن احسن صاحب کی خواہش تھی کہ اس پر ایک نظر سید محترم
بھی ڈال لیں تا کہ اس میں مرتب کی طرف سے کسی کوتاہی کا امکان باقی نہ رہے۔ یہ 1970ء کے آخری دنوں کا ذکر ہے جب سید مودودیؒ تفہیم القرآن کی تکمیل سے فارغ ہوئے تھے۔ چناں چہ احسن صاحب نے جولائی 1971ء میں کتاب کا مسودہ سید صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور ان سے نظرثانی و اضافے کی درخواست کی لیکن آپ نے خرابی صحت کی بنا پر اس سے معذوری ظاہر کردی۔ البتہ احسن صاحب کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ اس صراحت کے ساتھ اسے کتاب کی صورت میں شائع کرسکے ہیں کہ یہ سید مودودی کی اپنی تحریر نہیں بلکہ تقریری مواد کو ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے تحریر کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔ چناں چہ یہ کتاب ’’کتاب الصوم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور اسے بہت قبول عام حاصل ہوا۔ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے اور اب تک شائع ہورہے ہیں۔ رمضان المبارک آتا ہے تو اس کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ حفیظ الرحمن احسن نہایت علمی و ادبی شخصیت تھے وضع قطع میں اسلاف کا نمونہ۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے تھے اور مخاطب کو قائل کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ درس و تدریس سے تعلق تھا۔ کسی کالج میں پڑھاتے بھی رہے تھے۔ چناں چہ انہوں نے بچوں کی ذہنی نشوونما اور انہیں اسلام سے جوڑنے کے لیے متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کیں اور اپنے ادارے ’’ایوان ادب‘‘ کے زیر اہتمام انہیں شائع کیا۔ احسن صاحب ممتاز شاعر و ادیب اور ہمہ جہت شخصیت محترم نعیم صدیقی کے نہایت سرگرم رفیق اور معتمد ساتھی ثابت ہوئے۔ نعیم صاحب ادبی جریدہ ماہنامہ ’’سیارہ‘‘ نکالتے تھے۔ انہوں نے اپنی کمزوریٔ صحت کی بنا پر اپنی زندگی ہی میں ’’سیارہ‘‘ کی ادارت احسن صاحب کے سپرد کردی تھی۔ پرچے پر بطور مدیر نعیم صدیقی صاحب کا نام ہی شائع ہونا تھا لیکن اس کے کرتا دھرتا حفیظ الرحمن احسن ہی تھے۔ نعیم صاحب کے انتقال کے بعد پرچے کی تمام تر ذمے داری احسن صاحب پر آن پڑی اور جذباتی و ذہنی سہارا بھی باقی نہ رہا۔ ادبی پرچہ نکالنا بڑے جان جوکھم کا کام ہے۔ اس میں خون دل جلانا اور بہت کچھ لٹانا پڑتا ہے۔ احسن صاحب سے جب تک ممکن ہوا یہ کام کرتے رہے بالآخر یہ دفتر لپیٹنے پر مجبور ہوگئے۔
حفیظ الرحمن احسن ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ انہوں نے حمد و نعت، غزلوں اور نظموں کا ایک خزینہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔ وہ کتنے باکمال شاعر تھے اس کا اندازہ ان کے اشعار سے ہوتا ہے۔ ہم یہاں حمد و نعت اور ایک غزل سے ان کے چند اشعار درج کررہے ہیں۔
حمدیہ اشعار:
لا مکاں تیرا ہے اور عالمِ امکاں تیرا
کہکشاں بھی ہے کوئی قریۂ امکاں تیرا
تجھ کو محبوب ہوئے اشکِ ندامت میرے
خاص ہے اپنے خطاکار پر احساں تیرا
نعتیہ اشعار:
گنبد خضرا کے پَرتَو سے جہاں سر سبز ہے
یہ زمیں سر سبز ہے اور آسماں سر سبز ہے
فیض سے اُن کے منوّر ہے جہانِ فکر و فن
ان کے دم سے گلشنِ لفظ و بیاں سر سبز ہے
غزلیہ اشعار:
کم سے کم یہ تھی برائی کچھ صلا دیتا ہوں
جو برا چاہے میرا اس کو دعا دیتا ہوں
کھینچ لیتا ہوں نقاب ان سے ریا کا احسن
کتنے ہنستے ہوئے جبر ان کو مولا دیتا ہوں
حفیظ الرحمن احسن اس جہان آب و گل سے رخصت ہوئے لیکن دل کی دنیا ان کی یاد سے روشن رہے گی۔