ساری پابندی نماز اور جمعہ پر کیوں؟؟

709

ہنگامی حالات میں حکمرانوں کی دین بیزاری اور اسلامی شعائر سے دشمنی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ جب بھی کوئی دہشت گردی ہوتی ہے میڈیا کسی مذہبی طبقے سے اسے جوڑ دیتا ہے اور دین بیزار طبقہ اس پر تبصرے شروع کر دیتا ہے بعد میں حقائق کچھ اور برآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت میڈیا کے ذریعے ایک اور جنگ جاری ہے۔ ایرانی زائرین اور تبلیغی جماعت کے حوالے سے دو گروہ دو الگ الگ سمتوں میں خبریں پھیلا رہے ہیں۔ ایک گروہ ایرانی زائرین کی پاکستان آمد اور ان کو قرنطینہ سے نکالنے کی خبریں چلوا رہا ہے دوسرا تبلیغی جماعت اور نماز با جماعت اور جمعہ کی نماز کے حوالے سے۔ عجیب و غریب مہم چل رہی ہے اور توقع کے عین مطابق منگل، بدھ کی رات سے تبلیغی جماعت، رائے ونڈ مرکز اور مساجد میں تبلیغی جماعت کے ارکان کی موجودگی پر مساجد کو قرنطینہ کرنے کی خبریں آنے لگیں تاکہ اس حوالے سے جمعہ کو سخت اقدامات کیے جا سکیں اور ایسا ہی ہوا۔ اب حکومت سندھ نے جو اقدامات کیے ہیں ان میں جمعہ کو دوپہر بارہ بجے سے تین بجے تک لاک ڈائون سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر اور ماہرین یہ بتا رہے ہیں کہ ہر ایک کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں صرف کھانسی اور نزلے کے مریض پہنیں تاکہ اگر ان میں کورونا کے جراثیم ہیں تو دوسروں تک منتقل نہ ہوں۔ علما اور حکومت کے درمیان گورنر ہائوس میں اجلاس میں طے کیا گیا کہ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے نمازی، بیمار اور بچے مسجد نہیں آئیں گے، لوگ ماسک لگائیں گے، نماز اور خطبہ مختصر ہوگا۔ لیکن اس خبر کی اشاعت کے اگلے دن سندھ حکومت نے اعلان کر دیا کہ نماز کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس پر ملا جلا ردعمل آیا لیکن کوئی متفقہ اعلان نہیں آیا۔ جن لوگوں کی ساری سیاست اور ہل چل کا دارومدار اور انحصار صرف مساجد و مدارس پر ہے وہ بھی کھل کر موقف اختیار نہیں کر سکے، اکا دکا بیانات آئے۔ اب پھر جمعہ آ رہا ہے اور مساجد میں با جماعت نماز اور جمعہ کی نماز کے حوالے سے حکومت اور علما دونوں کی طرف سے کوئی واضح بات نہیں کی جارہی۔ حکومت کے اقدام کے نتیجے میں نماز پڑھنا مشکل ہو جائے گا لیکن اب بھی وقت ہے علمائے کرام آگے بڑھیں اور کوئی فیصلہ کریں۔ چند باتیں ان کی خدمت میں بھی۔ ایک یہ کہ کیا کورونا وبا اس طرح جان لیوا ہے جیسی طاعون، ہیضہ، پیچش وغیرہ ہیں اس طرح کیا ہلاکت خیزی میں کورونا دیگر عام بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہے کہ اس کی وجہ سے نماز باجماعت اور مساجد بند کرنے کی ضرورت پڑ جائے۔ ایک سوال یہ ہے کہ حکومت نے ٹیلی فون کمپنیوں کو جو ہدایات دی ہیں ان میں دس روز سے واضح طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ کورونا خطرناک ہے لیکن جان لیوا نہیں تو پھر علما کیا فرماتے ہیں میڈیا اور عالمی اداروں کی مہم کی وجہ سے نمازوں اور جمعہ کی جماعت پر پابندی لگانے کے بارے میں۔ اب ایک سوال حکمرانوں سے بھی پوچھا جائے کہ چین، اٹلی، اسپین، امریکا، برطانیہ میں ہلاکتیں سب سے زیادہ ہیں تو کیا وہاں لوگ مساجد میں نماز باجماعت پڑھتے تھے، جمعہ کے اجتماعات میں جاتے تھے۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔ تو پھر وہاں ہلاکتیں کیوں ہوئیں۔ اس پر کبھی تو سوال کیا جائے؟ اور کون یہ سوالات کرے گا۔ یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان ممالک میں سارے ہی لوگ شراب خانوںاور ہوٹلوں میں جاتے تھے یا چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں میں ہجوم کی شکل میں جاتے تھے۔ ہمارے ملک میں تو سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر میں یہ اہلیت ہی نہیں کہ وہ اس امر کا جائزہ لیں کہ وہاں کورونا پھیلنے کا سبب کیا ہے۔ مسجد اور نماز کو بڑی آسانی سے نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔ اب تو حج کے بارے میں بھی شبہات پھیلائے جا رہے ہیں۔ خود سعودی حکومت ایسے بیانات دے رہی ہے جن میں یوٹرن لینا آسان ہوجائے۔ پاکستان بھر میں لاک ڈائون کی کیفیت ہے لیکن بڑے برے سپر اسٹورز، اسپتالوں اور راشن کی تقسم کے مراکز میں ہجوم ہے۔ پنجاب کے شہروں میں مویشی منڈیاں لگ رہی ہیں۔ چھوٹے سے میڈیکل اسٹور میں اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ کھوے سے کھوا چھلنے کا محاورہ یاد آجائے۔ حد تو یہ ہے کہ وزیراعظم، کابینہ کے اراکین، سلام ڈاکٹر والے اشتہاروں میں درجنوں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر سلام ڈاکٹر کا اعلان کرتے ہیں۔ شہباز شریف لندن سے پاکستان آتے ہیں، پچاس لوگوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہیں کسی کے چہرے پر ماسک نہیں، قرنطینہ کہاں گیا، کوئی مریض بھی سامنے نہیں آیا۔ سارا وبال نماز باجماعت اور جمعہ کی نمازوں پر کیوں۔ جمعہ کو تو لوگ غسل کرکے صاف ستھرا لباس پہن کر آتے ہیں۔ مساجد کے دروازے پر سینی ٹائزر لے کر رضا کار کھڑے ہو جائیں۔ تھوڑی ہمت ہو تو نمازیوں میں ماسک تقسیم کردیں۔ لوگوں کی تعداد کم ہونے کے سبب ایک صف چھوڑ کر دوسری صف بنائی جائے۔ نمازیوں میں فاصلہ نہ ہو لیکن صفوں میں تو ہوسکتا ہے۔ راستہ نکالیں تلاش کریں اس کا حل۔ اب ہر پروپیگنڈے پر آنکھ بند کرکے چل پڑیں تو انسانوں اور بھیڑ بکریوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔