آئیں اللہ کی طرف رجوع کریں (آخری حصہ)

1454

کلثوم رانجھا
مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’مصائب سے بچنے کے پانچ نسخے‘‘ تحریر کیے ہیں۔ آپ رقم طراز ہیں: ’’مصائب سے بچنے کے لیے شریعت کی تعلیمات میں ایک واضح دستور العمل موجود ہے۔ جو لوگ مصیبتوں اور پریشانیوں سے حقیقی معنوں میں بچنا چاہتے ہیں، وہ پانچ اعمال کا اہتمام کرکے قلبی سکون اور راحت حاصل کرسکتے ہیں۔
1۔ گناہوں سے بچنا اور استغفار کرنا:نبی مہربانؐدن میں 100 100 مرتبہ استغفار کرتے تھے۔ہم گنہگار ہیں ہمیں رب کے حضور پلٹنا ہے، تْوبْو ا اِلٰی اللہِ جَمِیعا۔ اس حکم ربانی پر عمل کرتے ہوئے آئیں ہم مل کر اللہ سے گناہوں کی معافی مانگیں۔
سورہ نوح آیت نمبر 10 تا 12 کا ترجمہ ہے: ’’میں نے کہا، اپنے ربّ سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا‘‘۔
2۔ اپنا فرض منصبی پہچاننا: گناہوں سے توبہ واستغفار کے ساتھ اپنے فرض منصبی میں کوتاہی کرنے پر بھی توبہ کرنی چاہیے۔ اپنے فرض منصبی کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم طرح طرح کے مصائب کاشکار ہو گئے، اللہ کے احکامات ہماری آنکھوں کے سامنے ٹوٹ رہے ہیں۔ منکرات کا سیلاب امڈ آیا ہے لیکن اس کو روکنے کے لیے مطلوب سعی نظر نہیں آتی۔امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ احسن انداز سے ادا کرنا ہو گا۔
3۔ دعا کا اہتمام کرنا: دعا بھی ایک تدبیر ہے اور احسن التدبیر ہے۔دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز قدرومنزلت کی نہیں۔ اور جس کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں کے وقت اس کی دعا قبول فرما لیں اس کو چاہیے کہ خوشی اور عیش کے وقت کثرت سے دعا مانگا کرے۔
4۔ صدقہ وخیرات کا اہتمام کرنا: نبی کریمؐ نے فرمایا صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ (بخاری) خوشی ہو یا غم ہر موقع پر ربّ کی یاد ہی غالب رہنی چاہیے۔ نعمتیں عطا کرنے والے کی راہ میں نعمتوں کا استعمال نعمتوں میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ وطن عزیز میں معمول کے حالات میں بھی دکھی انسانیت تڑپ رہی ہے اور موجودہ حالات میں لاک ڈائون ہو یا کاروبار بند ہوجائیں تو یہ مسکین کہاں جائیں گے۔ موجودہ حالات میں مواخاۃ مدینہ کی یاد تازہ کرنی ہے۔
5۔ ذکر الٰہی: قولی، بدنی، ہر لحاظ سے ربّ کا ذکر کرنا اور ربِّ رحمن کی یاد سے اپنے ذہن اور بدن کو مصروف رکھنا مصائب سے بچنے کانسخہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ربّْ العالمین سے مانگیں گے تو وہ ضرور عطا کرے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے۔ سورہ البقرہ آیت 186 کاترجمہ ہے:’’اے نبی میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیںاور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انہیں بتا دو شاید کہ وہ راہ راست پا لیں‘‘۔
سورہ النمل آیت62 کا ابتدائی حصہ: ترجمہ: ’’کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکالیف کو رفع کرتا ہے‘‘۔
اِن شاء اللہ جب ہم خالص توبہ کر لیں گے، اللہ کی طرف پلٹ آئیں گے، اپنا مقام منصبی پہچان لیں گے، گڑگڑا کر ربِّ رحمن سے اس کی رحمت کو پکاریں گے، رَبِّ اغفِر وَارحَم وَاَنتَ خَیرْ الرَّاحِمِین، ہمارا ارحم الراحمین رب ہمیں ضرور معاف فرمائے گا۔ وبا کو ختم کرے گا، اس حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا، اپنی رحمت ِخاص سے پوری انسانیت کو ڈھانپ لے گا۔ ان شاء اللہ یہ مرض وخوف کے انسانیت پر چھائے غم کے بادل چھٹ جائیں گے۔ زندگی کی رونقیں لوٹ آئیں گی، اللہ ربُّ العالمین ہمیں معاف فرمائے، ہمارے انفرادی واجتماعی گناہ معاف فرما دے ، بخش دے اورہمیں اپنی رحمت خاص سے نوازے، آمین ثم آمین