آئیں اللہ کی طرف رجوع کریں (حصہ اوّل)

778

کلثوم رانجھا
11 دسمبر2019ء کوچین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والی وبا ’’بین الاقوامی وبا‘‘ بن چکی ہے،جس کے نتیجے میں لاکھوں انسان متاثرہو چکے اور ہزاروں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ ماہر ڈاکٹرز کئی جتن کرنے کے باوجود آج تک اس کی ویکسین ایجاد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس وقت چہار سو خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والا انسان کورونا سے متعلق سوچ اور بحث کر رہا ہے۔ مخیر طبقہ کے خواتین وحضرات کی پریشانیاں اور غم کی نوعیت الگ ہے جبکہ متوسط اور محروم طبقہ کی پریشانی کا عالم جدا ہے۔ مبصرین طرح طرح کے تبصرے کررہے ہیں۔
بہرحال انسانیت سوچنے پر مجبور ہے۔ ہر طرح کی ٹیکنالوجی بے بس ہوچکی ہے۔ انسانیت حالت خوف میں مبتلا ہے۔ ہر ایک مجبور و بے بس ہے۔ مصروف ترین زندگی گزارنے والے گھروں میں سہمے بیٹھے ہیں۔ تعلیمی ادارے، اسکولز، مدارس، دفاتر، مارکیٹس، ریسٹورینٹس سب بند کر دیے گئے ہیں۔ مشہور شاہراہیں اور گلیاںویران ہیں۔ بازار سنسان ہیں، ہرطرف ہو کا عالم ہے۔ اذہان کچھ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہورہے ہیں۔ آخر یہ کیا ہوا! کہ اتنے چھوٹے جراثیم نے جو نظر بھی نہیں آتا، پوری دنیا کوہلا کر رکھ دیا۔ اگر ہم غور کریں اور ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو انبیاء کرامؑ کی قوموں پرعذاب آتے رہے۔ ایک نظر دیکھتے ہیں۔ انبیائؑ کی قوموں کو کیا کیا عذاب نازل ہوئے۔
سیدنا نوحؑ: شرک، اللہ کی نافرمانی، نبی ؑکا انکار ومذاق۔ شدید بارش سیلاب میں غرق ہوئے۔
سیدنا لوطؑ: ہم جنس پرستی، نبی کی نافرمانی، تکبر۔پتھروں کی بارش، آندھی سے ہلاک ہوئے۔
سیدنا شعیبؑ: اللہ کی راہ پرچلنے والوں کو روکنا، ناپ تول میں کمی۔ زلزلہ اور آگ کے عذاب میں گرفتار ہوئے۔
سیدنا موسیٰؑ: شرک، فرعون کی پیروی، کتاب اللہ میں تحریف۔ صورتیں مسخ ہوئیں اور سمندر میں غرق ہوئے۔
سیدنا ہودؑ: نبی کو جھٹلایا، باپ دادا کی اندھی تقلید، سرکشی اور غرور۔ سخت ہوا کا طوفان، کئی روز تک چلنے والی آندھی سے ہلاک کیے گئے۔
سیدنا صالحؑ: شرک، تکبر، ڈھٹائی کے ساتھ انکار حق، اللہ کی نشانی پر دست درازی۔ سخت چنگھاڑ اور زلزلہ سے ہلاک ہوئے۔
اے امت محمدی! اگر ہم غور کریں تو مخبر صادقؐ کی امت ہر طرح کی برائی میں مبتلا ہوگئی ہے نتیجتاً آج ہم شدید آزمائش سے دوچار ہوچکے ہیں۔
1۔ ہم بھول گئے کہ جس کی زمین ہے اُسی کا اختیار ہے، ہم نے اپنی ضرورتیں انسانوں سے وابستہ کر لیں۔
2۔ ہم بھول گئے کہ نبی مہربان ہی ہمارے ہادی و رہنما ہیں، ہم انسانوں کی بے جا افتراق اور خوف میں مبتلا ہو گئے۔
3۔ ہم بھول گئے کہ قرآن مجید انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے رہنما کتاب ہے۔
4۔ ہم بھول گئے کہ زبان ودل کی حفاظت میری ہی ذمے داری ہے۔ ہم بھول گئے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے اہم فریضہ کی ادائیگی کے لیے اللہ کے نائب کی حیثیت سے دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔
5۔ ہم اپنی مشکلات کا حل دولت کا استعمال، سفارش، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کو سمجھنے لگے۔
6۔ ہم بھول گئے کہ ہمیں اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ربّ کی غلامی میں دیناہے۔
7۔ ہم کساد بازاری، سود خوری، رشوت، خودغرضی، جھوٹ، غیبت، حسد، اناپرستی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے۔
عظیم ہم وطنو!ہمارے ربّ نے ہمیں جھنجھوڑا اور بھولے ہوئے سبق یاد دلائے۔ مفہوم حدیث ہے:امت مسلمہ جسد واحد کی مانند ہے۔ ربّ نے یاد دلایاکہ:وہ کشمیر میں رونے، تڑپنے اور لاک ڈائون میں ماہ و شب گزارنے والے تمہارے ہی بدن کا حصہ ہیں۔وہ برما میں بے گھر اور بے در ہونے والے بھی تمہارے ہی بہن بھائی تھے۔ وہ شام کی سرحدوں پردریائوں کے کنارے رُلتی معصوم بچوں کی لاشیں بھی تمہیں متوجہ نہ کرسکیں۔ انڈیا میں مسلم کش فسادات کے نتیجے میں بہنے والا لہو بھی تمہیں نہ تڑپا سکا۔ دنیا کے مختلف ممالک جہاں بھی مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ جہاں آج مسلمان عورت کی ردا تار تار ہے۔ جہاں مسلمان عورت کی عصمت دری ہوتی ہے۔ جہاں امت مسلمہ کے نوخیز پھول مسلے جاتے ہیں۔ جہاںنوجوان میزائلوں،تو پوں اور گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
ہمارے ہی وطن میں: حوا کی بیٹی حیا کی چادر سے بے خبر ہوچکی ہے۔ اولاد والدین کا ادب بھول چکی ہے۔ ہرطرف ایک نفسا نفسی کے عالم میں ہے۔ ہر ایک یہ کہنے کو تیار ہے کہ آپ کو کیا غرض، میں بہت سمجھتا ہوں۔ فرائض کی ادائیگی کی فکر کم سے کم اورحقوق کی طلب میںاضافہ نے خودغرضی میں اضافہ کردیاہے۔ امیرامیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ معاشرہ میں طبقاتی کشمکش نے غریب کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ کہیں غریب خودکشی اور اولاد بیچنے پر مجبور ہے اور کہیں وڈیروں کے کتے پلائو کھاتے ہیں۔
جب اقوام اللہ کی طرف سے عائد فرائض کو ترک کردیتی ہیں اور غلط اور صحیح کے پیمانے خود مقرر کرلیتی ہیں تو فتنوں کی زد میں آ جاتی ہیں۔
نبی مہربانؐ نے فرمایا:لوگو! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا۔ جب تمہاری عورتیں حدود سے نکل پڑیں گی، تمہارے جوان نافرمان ہوجائیں گے اور تم جہاد کو چھوڑ بیٹھو گے۔
صحابہ کرام ؓنے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ کیا واقعی ایسا بھی ہوگا؟
آپؐ نے فرمایا! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کوچھوڑ بیٹھو گے۔
صحابہؓ نے کہا :اے اللہ کے رسولؐ !کیا ایسا بھی ہونے والا ہے؟
ہاںقسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ ہوگا۔
اب صحابہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ !اس سے زیادہ اورکیا ہو گا؟
آپؐ نے فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم معروف کو منکر اور منکر کومعروف سمجھنے لگو گے۔
پھرآپؐ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کہتاہے۔
جب ایسی صورتحال ہو جائے گی تو میں ان کے لیے ایسا فتنہ برپا کردوں گا کہ جس میں صاحبان عقل و ہوش حیران وششدر رہ جائیں گے۔ (ابن ابی الدنیا۔ چند نکات کلام نبوی کی صحبت میں) دیکھیے آج یہ حالات پوری طرح نظر آرہے ہیں۔
اے وطن عزیز کے باسیو!بالآخر ربِّ رحمن نے ہمیں جھنجھوڑا کہ پلٹ آئو۔ فرمان الٰہی ہے:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ اللہ سے توبہ کر لو، خالص توبہ۔ بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔یہ وہ دن ہو گا جب اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جواس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا۔ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب !ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما ،تو ہر چیز پرقدرت رکھتا ہے۔ (سورہ التحریم آیت: 8)
اے اہل وطن! ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں ،ہم نبی مہربانؐ کے امتی ہیں۔ ہم حامل قرآن ہیں، ہم مدینہ منورہ کے بعد اسلام کے نام پر قائم کی گئی دوسری اسلامی ریاست کے وارث ہیں۔ آئیں ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں، اپنے ربّ کو راضی کرلیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’مصائب سے بچنے کے پانچ نسخے‘‘ تحریر کیے ہیں۔ آپ رقم طراز ہیں: ’’مصائب سے بچنے کے لیے شریعت کی تعلیمات میں ایک واضح دستور العمل موجود ہے۔ جو لوگ مصیبتوں اور پریشانیوں سے حقیقی معنوں میں بچنا چاہتے ہیں، وہ پانچ اعمال کا اہتمام کرکے قلبی سکون اور راحت حاصل کرسکتے ہیں۔
1۔ گناہوں سے بچنا اور استغفار کرنا:نبی مہربانؐدن میں 100 100 مرتبہ استغفار کرتے تھے۔ہم گنہگار ہیں ہمیں رب کے حضور پلٹنا ہے، تْوبْو ا اِلٰی اللہِ جَمِیعا۔ اس حکم ربانی پر عمل کرتے ہوئے آئیں ہم مل کر اللہ سے گناہوں کی معافی مانگیں۔
سورہ نوح آیت نمبر 10 تا 12 کا ترجمہ ہے: ’’میں نے کہا، اپنے ربّ سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا‘‘۔
2۔ اپنا فرض منصبی پہچاننا: گناہوں سے توبہ واستغفار کے ساتھ اپنے فرض منصبی میں کوتاہی کرنے پر بھی توبہ کرنی چاہیے۔ اپنے فرض منصبی کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم طرح طرح کے مصائب کاشکار ہو گئے، اللہ کے احکامات ہماری آنکھوں کے سامنے ٹوٹ رہے ہیں۔ منکرات کا سیلاب امڈ آیا ہے لیکن اس کو روکنے کے لیے مطلوب سعی نظر نہیں آتی۔امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ احسن انداز سے ادا کرنا ہو گا۔
3۔ دعا کا اہتمام کرنا: دعا بھی ایک تدبیر ہے اور احسن التدبیر ہے۔دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز قدرومنزلت کی نہیں۔ اور جس کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں کے وقت اس کی دعا قبول فرما لیں اس کو چاہیے کہ خوشی اور عیش کے وقت کثرت سے دعا مانگا کرے۔
4۔ صدقہ وخیرات کا اہتمام کرنا: نبی کریمؐ نے فرمایا صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ (بخاری) خوشی ہو یا غم ہر موقع پر ربّ کی یاد ہی غالب رہنی چاہیے۔ نعمتیں عطا کرنے والے کی راہ میں نعمتوں کا استعمال نعمتوں میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ وطن عزیز میں معمول کے حالات میں بھی دکھی انسانیت تڑپ رہی ہے اور موجودہ حالات میں لاک ڈائون ہو یا کاروبار بند ہوجائیں تو یہ مسکین کہاں جائیں گے۔ موجودہ حالات میں مواخاۃ مدینہ کی یاد تازہ کرنی ہے۔
5۔ ذکر الٰہی: قولی، بدنی، ہر لحاظ سے ربّ کا ذکر کرنا اور ربِّ رحمن کی یاد سے اپنے ذہن اور بدن کو مصروف رکھنا مصائب سے بچنے کانسخہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ربّْ العالمین سے مانگیں گے تو وہ ضرور عطا کرے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے۔ سورہ البقرہ آیت 186 کاترجمہ ہے:’’اے نبی میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیںاور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انہیں بتا دو شاید کہ وہ راہ راست پا لیں‘‘۔
سورہ النمل آیت62 کا ابتدائی حصہ: ترجمہ: ’’کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکالیف کو رفع کرتا ہے‘‘۔
اِن شاء اللہ جب ہم خالص توبہ کر لیں گے، اللہ کی طرف پلٹ آئیں گے، اپنا مقام منصبی پہچان لیں گے، گڑگڑا کر ربِّ رحمن سے اس کی رحمت کو پکاریں گے، رَبِّ اغفِر وَارحَم وَاَنتَ خَیرْ الرَّاحِمِین، ہمارا ارحم الراحمین رب ہمیں ضرور معاف فرمائے گا۔ وبا کو ختم کرے گا، اس حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا، اپنی رحمت ِخاص سے پوری انسانیت کو ڈھانپ لے گا۔ ان شاء اللہ یہ مرض وخوف کے انسانیت پر چھائے غم کے بادل چھٹ جائیں گے۔ زندگی کی رونقیں لوٹ آئیں گی، اللہ ربُّ العالمین ہمیں معاف فرمائے، ہمارے انفرادی واجتماعی گناہ معاف فرما دے ، بخش دے اورہمیں اپنی رحمت خاص سے نوازے، آمین ثم آمین