قیدیوں کی اندھا دھند رہائی پر روک

591

عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ضمانت ملنے والوں کی رہائی کو فوری طور پر روک دیا گیا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے کورونا کی بناء پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جسٹس گلزار احمد نے ایڈوکیٹ جنرلز اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی آفت میں لوگ اپنے اختیار سے باہر ہوجائیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی ہر حال میں قائم رکھنی ہوگی ۔ انہوں نے استفسار کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کس اختیار کے تحت تمام قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے اور یہ بھی قرار دیا ہے کہ اس انداز میں ضمانتیں دینا ، ضمانت کے بنیادی اصول کے خلاف ہے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ عام طور پر قیدیوں کو قابل رحم سمجھا جاتا ہے حالانکہ بیشتر قیدی اخلاقی جرائم میں ماخوذ ہوتے ہیں اور انہیں جرم ثابت ہونے پر سزا دی گئی ہوتی ہے ۔ ان پر رحم کھانا عدل اور انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے ۔ جن قیدیوں پر اسلام میں رحم کھانے اور مدد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، وہ اخلاقی جرائم میں ماخوذ نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ جنگوں میں بنائے گئے قیدی ہوتے تھے یا جرمانے کی رقم ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ اس تصور کی وجہ سے لوگ قیدیوں کو جیل سے چھڑانے کے کام کو ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اس اہم مسئلے پر بروقت توجہ کرکے انارکی کو پھیلنے سے پہلے ہی روک دیا ہے ۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے کہ کسی بھی صوبے یا دارالحکومت کی عدالت کے بارے میں یہ تصور پیدا ہوجائے کہ وہاں کا جج یا سربراہ جج کسی کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے ۔ جسٹس گلزار احمد نے درست استفسار کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کس اختیار کے تحت تمام قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھا ۔ اس جانب ہم پہلے بھی توجہ دلاتے رہے ہیں کہ یہ عمومی رویہ ہے کہ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کی اکثریت اعلیٰ عدالتوں میں جا کر یکسر تبدیل ہوجاتی ہے ۔ ہم نے پہلے بھی یہ عرض کیا تھا کہ اس کے دو معنی ہیں ، یا تو ماتحت عدالتیں درست فیصلے کرنے سے قاصر ہیں ، یا پھر وہاں پر بدعنوانی کا دخل ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں بدعنوانی فروغ پاچکی ہے ۔ دونوں ہی صورتیں انتہائی خوفناک ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ ججوں کا بھی احتساب کیا جائے کہ آخر یہ فیصلے کیوں تبدیل ہوتے ہیں ۔ ججوں کی آمدنی سے زاید اثاثوں اور معیار زندگی پر بھی پوچھ گچھ کی جانی چاہیے ۔ ہم اب توقع رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس گلزار احمد ضرور اس پہلو پر توجہ دیں گے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہی پیر کو ملک کے اہم ترین ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو ایک گھنٹے کے اندر اندر کھولنے کا حکم جاری کیا ہے ۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو وزیراعظم عمران خان نیازی کے حکم پر معطل کیا گیا تھا اور اس کی جگہ ایک اور ادارہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے نام سے قائم کیا گیا تھا ۔ اس ادارے کا بورڈ عمران خان نیازی کے اسپتال شوکت خانم میموریل اسپتال ، آغا خان اسپتال اور این جی اوز کے نمائندوں پر مشتمل تھا۔ ان میں سے کم لوگ ہی طب کے پیشے سے تعلق رکھتے تھے ، یوں ملک میں صحت کے اہم ترین شعبے کو داؤ پر لگادیا گیا تھا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چھ ماہ قبل پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ملازمین کی درخواست پر ڈینٹل کونسل کی بحالی کا حکم دیا تھا تاہم حکومت نے حسب عادت اس حکم کو بھی قابل اعتناء نہیں سمجھا ۔ چھ ماہ کے بعد توہین عدالت کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سخت احکامات جاری کیے ۔ اس ایک کیس سے ہی سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت کی نظر میں عدلیہ اور عدالتی احکامات کی کیا اہمیت ہے ۔ اصولی طور پر تو حکومت کے عمال کو شعوری طور پر عدلیہ کی حکم عدولی پر سخت سزا دی جانی چاہیے تھی تاکہ آئندہ کسی کو عدلیہ کی حکم عدولی کا خیال بھی نہ آسکے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد اس جانب بھی توجہ کریں گے کہ حکومت عدلیہ کے احکامات پر فوری عملدرآمد کرے اور جو بھی اس ضمن میں لیت و لعل سے کام لے ، اسے سخت ترین سزا دی جائے ۔