سندھ میں لاک ڈائون میں نرمی کی جائے

1051

یہ بات خوش آئند ہے کہ سندھ میں کورونا کے نئے کیسوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے ۔ اگر صورتحال اسی طرح رہی تو جلد ہی سندھ میں نئے کیس نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے ۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں پر کورونا سے متاثرہ مریضوں کی اکثریت کا تعلق بیرون ملک سے آنے والوں سے ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ایک مریض سے دیگر افراد کے متاثر ہونے کی شرح انتہائی کم ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت سندھ کو اب لاک ڈاؤن کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے تھی ۔ ہماری وزیرا علیٰ سندھ سے درخواست ہے کہ لاک ڈاؤن مکمل ختم نہ کیا جائے تو بھی اس میں نرمی ضرور کی جائے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سندھ میں لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں قطعی طور پر منجمد ہیں جس کے نتیجے میں سندھ میں بسنے والے ایک طرف معاشی تنگدستی کا شکار ہوچکے ہیں تو دوسری طرف دیگر مسائل کا بھی شکار ہیں ۔ اس ایک ہفتے میں اگر فلیٹوں کے کسی پروجیکٹ میں پانی کی موٹر خراب ہوگئی ہے تو وہ درست نہیں ہوسکتی کہ سوائے خورونوش کے تمام ہی دکانیں بند ہیں اور یوں سیکڑوں لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں اور چار منزلوں تک لوگ پانی لے کر جارہے ہیں ۔ا سی طرح وہ لوگ جو اپنے گھروں پر سوئی گیس کا کنکشن نہ ہونے کی بناء پر ایل پی جی استعمال کرتے ہیں ، اب ایل پی جی ختم ہونے پر پریشانی کا شکار ہیں کہ کھانا کس طرح پکائیں ۔ اس طرح کی درجنوں مشکلات ہیں ، جن کا عوام روز ہی سامنا کررہے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ عوام ہی کے مفاد میں کیا گیا تھا مگر اب جبکہ صورتحال بہتر ہے تو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اگر حکومت لاک ڈاؤن ختم کرنے کو مناسب نہیں سمجھتی توابتدائی طور پر صبح سے لے کر پانچ بجے تک ہی معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔14 دن تک ہی لاک ڈاؤن شہریوں کی معاشی کمر توڑنے کے لیے کافی ہے نہ کہ اس میں مزید سات دن کا اضافہ کردیا جائے ۔ سرکار نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے بے روزگار افراد کے گھروں پر راشن پہنچانے کا اعلان کیا تھا مگر یہ اعلان محض اعلان تک ہی محدود رہا ۔ایک ہفتے سے زاید کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی بھی ایک خاندان کے گھر پر راشن نہیں پہنچ سکا ۔ ایک رفاہی تنظیم کے حوالے سندھ حکومت نے یہ راشن پہنچانے کا کام کیا مگر اس تنظیم کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔ پہلے افراد کے شناختی کارڈ لے کر انہیں راشن کارڈ جاری کیے گئے اور پھر انہیں کہا گیا کہ فلائی اوور پلوں پر یہ راشن دینے کا انتظام کیا گیا ہے ، وہاں پر لینے پہنچ جائیں ۔ اخبارات میں تصاویر شایع ہوئی ہیں کہ کس طرح معذور اور بوڑھے افراد پہلے پل پرچڑھ رہے ہیں اور پھر کس طرح مشقت اٹھا کر راشن لے کر نیچے اتر رہے ہیں ۔ جب مذکورہ لوگوں کو راشن کارڈ دیا جارہا تھا تو اسی طرح ان کو راشن بھی دیا جاسکتا تھا ۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی تو مایوس کن رہی تاہم جماعت اسلامی کے شعبہ خدمت خلق الخدمت سمیت دیگر سماجی تنظیموں نے جس طرح اپنی بساط سے بڑھ کر ضرورتمندوں کی خدمت کی ہے ، وہ قابل ستائش ہے ۔ ملک میں کورونا کی وبا اتنی خطرناک نہیں ہے جتنی اس کے بارے میں پھیلائی جانے والی خبریںاور انہیں نشر کرنے کا انداز خطرناک ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اس جانب توجہ دے اور لوگوں میں سے خوف ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے ۔ کورونا کے بارے میں اتنا خوف پیدا کردیاگیا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے اور صورتحال معمول پر آنے کے بعد بھی مہینوں تک لوگوں سے خوف دور نہیں ہوگا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبہ سندھ میں اتنے کیس رپورٹ نہیں ہوئے ، جتنا اس بیماری کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔ سندھ میں کورونا سے بچاؤ کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں ، وہ بھی غیر تسلی بخش رہے ہیں ۔ اسپتالوںمیں کام کرنے والا طبی و غیر طبی عملہ فرنٹ لائن پر لڑنے والا سپاہی ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی حکومت سندھ نے فرنٹ لائن پر لڑنے والے ان سپاہیوں کو ضروری حفاظتی سامان دیا ہے ۔ کرا چی ائرپورٹ پر اسکریننگ کا کام کرنے والے وفاقی وزارت صحت کے ایک ملازم میں کورونا کا ٹیسٹ اس لیے مثبت آگیاکہ اسے ضروری حفاظتی سامان نہیں دیا گیا تھا ۔ اسی طرح صوبہ سندھ کے سارے ہی اسپتالوں میں ڈاکٹر مسلسل اپیل کررہے ہیں کہ انہیں ضروری حفاظتی کٹ دی جائے مگر حکومت اس پر کان دھرنے کو راضی نہیں ہے ۔ میڈیکل اسٹوروں پر ماسک ، گاؤن اور دیگر حفاظتی سامان دستیاب نہیں ہے کہ یہ ڈاکٹر خود ہی خرید لیں اور حکومت یہ سامان ان ڈاکٹروں کو دینے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ اب یہ ڈاکٹر کیا کریں ، گھر بیٹھتے ہیں تو مریض مرتے ہیں اور کام کرتے ہیں تو ان کی اپنی جان کے ساتھ ان کے اہل خانہ کی جان کو بھی خطرات ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ سید مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم کیوں اس جانب توجہ دینے سے گریزاں ہے ۔ کیا جب تک اسپتالوں کا طبی اور غیر طبی عملہ قرنطینہ میں نہیں پہنچ جاتا،ا س وقت تک سید مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم کے کان پر جوں نہیں رینگے گی ۔