وزیر اعظم نئے تجربے پر تل گئے ، ملک بھر میں یوسی چیئر مین اور کونسلر ز اہم کردار ادا کرسکتے تھے

330

 

کراچی (رپورٹ: فاروق اعظم صدیقی) پاکستان میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 16 ہوگئی جبکہ متاثرہ مریضوں کی تعداد 1560 تک جاپہنچی ہے۔ اس وبا کی وجہ سے ملک بھر میں تقریباً ایک ماہ سے کاروبار زندگی معطل ہے اس صورتحال میں امراء اور متوسط طبقے نے تو کئی ماہ کا راشن گھروں میں ذخیرہ کرلیا ہے جبکہ دیہاڑی دار لوگوں کی مشکلات نہ صرف بڑھ گئی ہیںبلکہ انہیں کھانے کے لالے پڑ چکے ہیں اور بہت سے سفید پوش افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ اس سنگین صورتحال کے باوجود وفاقی و صوبائی حکومتوں کوغریب،مساکین اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افرادکاابھی تک کوئی خیال نہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں اس وقت عوام کو راشن فراہم کرنے کے لیے اعلانات تو کررہی ہیں لیکن ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ ملک بھر میں 84 ہزار منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نئے تجربے پر تل گئے، خوراک کی تقسیم کے لیے ٹائیگر فورس بنانے کے لیے نوجوانوں کی رجسٹریشن کا اعلان کیا گیا ہے جس کی تشکیل اور اسے قابل عمل بنانے میں ہی کم از کم ایک ماہ لگ جائے گا اور یہ بھی ضمانت نہیں ہے کہ یہ عمل
کامیاب بھی ہوپائے گا، جبکہ سندھ حکومت بھی راشن پہنچانے کے مختلف طریقے ڈھونڈ رہی ہے اور صرف اعلانات کی حد تک ہی لوگوں کو راشن پہنچا پائی ہے۔ دوسری طرف یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں اورلاک ڈاؤن کے باعث ان کے گھر کا چولہا بجھ چکا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ملک بھر میں یوسی چیئرمین اور کونسلرز اہم کردار ادا کرسکتے تھے ، کونسلرز اور چیئرمینز اپنے علاقوں کی تفصیلی معلومات رکھتے ہیںاور محلے کی ہر گلی اور گھر سے بخوبی واقف ہیںجبکہ وہاں رہنے والے سے متعلق بھی انہیں مکمل معلومات ہوتی ہیں کہ ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور اس وقت وہ کن حالات کا شکار ہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاق و صوبائی حکومتیں حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر یونین کونسلز کے ذریعے راشن کی تقسیم کا نظام بنائیں۔ تمام تر اختلافات اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کرملک بھر میں موجود 84 ہزار منتخب بلدیاتی نمائندوں کو راشن کی تقسیم کے لیے متحرک کیا جائے کیونکہ مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں صرف بلدیاتی نمائندوں کو ہی تفصیلی معلومات ہیں کہ ان کی گلی اور محلے کے کن گھروں میں راشن کی ضرورت ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں منتخب کونسلرز اور چیئرمینز اپنے علاقوں کی تفصیلی معلومات کی وجہ سے جتنے مؤثر انداز میں حکومت کی جانب سے نچلی سطح پر عوام کو ریلیف فراہم کرسکتے ہیں اتنا رضاکار بھی نہیں کرسکتے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے شہروں، گلیوں، محلوں اور دیہات میں موجود لوگوں تک معلومات اور امداد پہنچانے کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ اندازہ ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور یہ وائرس مزید پھیل سکتا ہے اور صورتحال خطرناک رخ اختیار کرسکتی ہے، اس حوالے سے حوالے سے معروف سائنسدان ڈاکٹر عطا الرحمن نے بھی کہا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے متاثرہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو حکومت کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔ اس قبل اس کے کہ یہ غریب طبقہ بھوک کی وجہ سے اس خطرناک صورتحال میں سڑکوں پر نکل آئے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں صورتحال کو سنبھالنے میں ناکام ہوجائیں گی فوری طور پر بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے ان کی خبر گیری کی جائے۔