ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تیاری نہیں

649

پاکستانی حکومتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکومتوں نے (وفاقی اور صوبائی) یہ ثابت کردیا کہ اگر ملک میں ہنگامی حالات پیدا ہو جائیں تو وہ ان سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ بدقسمتی سے ذخیرہ اندوز اور انسانیت سے عاری لوگ ہر معاشرے میں ہیں۔ پاکستان میں بھی ان کی کمی نہیں ہے۔ چنانچہ لاک ڈائون کے دوران موقع سے فائدہ اٹھا کر ذخیرہ اندوزوں نے کھانے پینے کی اشیاء مہنگی کر دیں۔ بڑے اسٹورز پر بے تحاشہ رش ہو گیا۔ جس کی وجہ سے خریداری میں مشکلات ہو رہی ہیں۔ اس پر طرّہ حکومت نے دکانیں بند کرنے کے اوقات بھی اچانک شام پانچ بجے کر دیے جس کے سبب لاک ڈائون کے مقاصد بھی حاصل نہیں ہو پا رہے۔ لوگوں کی بھاری تعداد دکانوں اور سپر اسٹورز کا رخ کر رہی ہے جہاں بے تحاشا رش ہوتا ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل مشکل ہو رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان بار بار ذخیرہ اندوزوں کو تنبیہ کر رہے ہیں، تنبیہ تو انہوں نے پر سکون حالات میں بھی آٹا، چینی مافیا کو کی تھی لیکن وہ باز نہیں آئے تھے۔ اب بھی یہی صورتحال ہے وزیراعظم یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی قدم اٹھائیں گے۔ لیکن اب تک انہوں نے جتنی مرتبہ خطاب کیا اس کا لب لباب یہی ہوتا ہے کہ آپ نے ڈرنا نہیں ہے لڑنا ہے… لیکن اگر دیکھا جائے تو حکومت یا صوبائی حکومتیں عملاً کچھ نہیں کر رہی ہیں صرف اعلانات ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے ہزاروں نوجوان بھرتی کرنے کا کام شروع کردیا ہے یہ نوجوان کیا کریں گے۔ کیا یہ گھر گھر خوراک پہنچائیں گے۔ لیکن اس کے لیے تو اعداد وشمار کی ضرورت ہے اور حکومتوں کے پاس وہ ہیں نہیں۔ سندھ حکومت جو سب سے آگے تھی اس نے تیز رفتاری سے سخت اقدامات کیے اس کے نتائج اچھے بھی آئے لیکن اب ان کو سمیٹنے کے لیے اس میں صلاحیت نہیں ہے اور جو اقدامات غلط ہیں ان کی ذمے داری بھی حکومت اپنے سر لینے کو تیار نہیں۔ آنے والے دنوں میں اچانک بازار کھولنے اور دفاتر میں لوگوں کی واپسی کے مراحل کس طرح عبور کیے جائیں گے۔ اس کی تیاری نہیں ہے۔ موسم میں حدت بڑھ رہی ہے جو کورونا وائرس کے خاتمے کا سبب بنے گی۔ لیکن حکومت سندھ نے ایک ہزار بستروں کا اسپتال تیار کرنے کا اعلان کردیا۔ جبکہ موسم میں گرمی بڑھنے سے وائرس ختم ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ صحتیاب ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ نئے مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اب صرف میڈیا پر انحصار کیا جا رہا ہے وہ کس طرح مریضوں کی تعداد میں اضافہ کرے گا۔ ڈاکٹر ظفر مرزا پاکستان ٹی وی چینلز سے کہہ رہے ہیں کہ مغربی ممالک میں ہلاکتوں کی خبروں کو زیادہ نہ اچھالا جائے۔ ان کا کہنا بالکل درست ہے ان ممالک میں درجہ حرات اب بھی کم ہے اور سرد ممالک میں یہ وائرس زیادہ اثر کر رہا ہے۔ اسی طرح پہلے سے بیمار، سانس کے مرض میں مبتلا لوگ، شراب نوشی کا شکار لوگ اور دیگر اسباب بھی ہیں۔ پاکستان میں بہت سے ماہرین سامنے آگئے ہیں جو خوف پھیلا رہے ہیں۔ اس وقت حکومتیں خود مختلف سمتوں میں چل رہی ہیں جو کام سندھ نے کردیا وہ وفاق ہرگز نہیں کرے گا۔ جو حکم مرکز نے دیا اسے صوبہ سندھ میں نہیں چلنے دیا جائے گا۔ سب سے اہم مسئلہ اشیائے خورونوش ہے۔ مرکز اور صوبے کے اختلافات کے سبب بالائی علاقوں تک اشیائے خورونوش پہنچانا مشکل ہو گیا اب قلت بڑھ رہی ہے۔ بار بار حکمرانوں کو متوجہ کیا جا رہا ہے لیکن اب معاملہ سنگین ہو رہا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ الگ ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے ریلیف کا کام ایک تنظیم کی وساطت سے شروع کیا ہے۔ وہ تنظیم اپنے انداز میں خوراک تقسیم کر رہی ہے جس کے الگ نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ جگہ جگہ رش لگا ہوا ہے، حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی بھی نہیں ہو رہی ہے۔ اگر حکومتیں اپنے اپنے وقت پر اعداد و شمار محفوظ رکھتیں تو ان کی بنیاد پر لوگوں میں راشن تقسیم کرنا آسان ہوتا۔ لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ یہ کام گزشتہ حکومتوں کو بھی کرنا چاہیے تھا۔ یونین کونسل ایک ایسا ادارہ ہے جس کے پاس ایک ایک فرد کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں ان کی مدد سے ضرورت مندوں کا تعین بھی کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کرے یہ بحرانی کیفیت جلد گزرے حکمران، میڈیا اور سیاستدان ذمے داری کا مظاہرہ کریں اس کے بعد اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ کسی ہنگامی صورتحال کے لیے ملک میں کوئی تیاری نہیں ہے۔