کورونا وائرس: حکومتی پیکیج اور رفاہی ادارے

491

پاکستانی معیشت جو ویسے ہی آئی ایم ایف کی سخت شرائط، بلند شرح سود اور حکومتی نالائقیوں کے باعث زخمی ہوچکی تھی کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اور ملک کے طول و عرض میں لاک ڈائون کی وجہ سے آخری سانسیں لے رہی تھی، لاکھوں افراد بیروزگار ہورہے تھے، کاروبار ٹھپ ہوچکا تھا، تمام معاشی سرگرمیاں منجمد ہوچکی تھیں۔ ایسے میں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 5.8 کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا، اس کے بعد حکومت نے حال ہی میں 12 سو ارب روپے کے ایک امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں زراعت، صنعت، برآمدات کے علاوہ غریب اور بیروزگار افراد اور روزمرہ کام کرکے روزی کمانے والے لوگوں کے لیے امداد بھی شامل ہے۔ مثلاً ایک کروڑ 20 لاکھ خاندان کو 3 ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے، یہ الگ بات ہے کہ 3 ہزار روپے ماہانہ میں تو ایک فرد کا گزارہ بھی ناممکن ہے۔ اسی طرح یوٹیلیٹی اسٹورز میں بنیادی اشیا کی فراہمی کے لیے 50 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے۔ بجلی اور گیس کے چھوٹے صارفین کے لیے بلوں کی ادائیگی موخر کرتے ہوئے آئندہ 3 ماہ میں قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت دی گئی ہے، تمام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے فی لیٹر کمی کردی گئی ہے، حالاں کہ جس رفتار سے عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ نیچے آئے ہیں اس حساب سے 30 سے 40 روپے کمی کرنی چاہیے تھی۔ معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے شرح سود میں کمی کرتے ہوئے اسے 11 فی صد تک لایا گیا ہے جس پر کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں اسے 7 سے 8 فی صد تک ہونا چاہیے۔ دوسری طرف ڈالر کی مارکیٹ میں طلب بڑھنے کے باعث ایک ڈالر 166 روپے کا ہوگیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے، گزشتہ ایک ہفتے میں سات آٹھ ہزار انڈیکس پوائنٹ کی کمی ہوئی ہے۔ بار بار ٹریڈنگ کو روکنا پڑا ہے اور گرتے گرتے انڈیکس پوائنٹ 28 ہزار تک آگیا ہے۔
جہاں تک حکومت کے امدادی پیکیج کا تعلق ہے اس میں سے جو رقوم زراعت، صنعت، برآمدات، درآمدات کے لیے مختص کی گئی ہیں وہ اُن شعبوں تک پہنچ جائیں گی کیوں کہ اُن میں سے ہر ایک میں ایسے بااثر اور طاقتور افراد شامل ہیں جن کے مطالبوں اور تجاویز پر یہ اعلانات کیے گئے ہیں۔ لیکن وہ امداد جو غریب، بے روزگار اور روزانہ کام کرنے والے مفلس اور بے سہارا لوگوں کے لیے رکھی گئی ہے وہ اُن تک کیسے پہنچے گی، اس کے لیے ایک طرف تو ایماندار، محنتی اور فرض شناس عملے کی ضرورت ہے اور دوسرا ایک ایسا نظام یا میکنزم جس کے ذریعے ان لوگوں تک امداد پہنچ سکے۔ پھر اس میں مسئلہ یہ بھی ہے کہ امداد کا اعلان وفاقی حکومت نے کیا ہے جب کہ اس پر عملدرآمد صوبوں کے ذریعے ہوگا۔ کیا اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی ہے، اس کا جواب لاک ڈائون کے معاملے میں مل سکتا ہے۔ سندھ میں لاک ڈائون شروع ہوگیا۔ وفاقی حکومت اس کی مخالفت کرتی رہی۔ اب آہستہ آہستہ دوسرے صوبوں جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں بھی لاک ڈائون ہوچکا ہے۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو اسلام آباد میں بھی لاک ڈائون کا اعلان کرنا پڑا۔ اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کورونا وائرس کی وبا جس میں اب تک 12 سو لوگ متاثر ہوچکے ہیں اور 10 اموات ہوچکی ہیں۔ ایک پیج پر نہیں ہیں، اس نازک موقع پر بھی تمام سیاست دان اپنے اپنے مفادات کے اسیر نظر آتے ہیں۔
خوش آئند بات اس صورت حال میں ہے کہ ملک میں موجود رفاہی اور فلاحی ادارے اور مخیر حضرات انتہائی سرگرم، متحرک اور فعال نظر آتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن جو سالہا سال سے صحت، تعلیم، صاف پانی کی فراہمی، مستحق افراد کی مالی امداد اور آفت زدہ علاقوں کی امداد میں مصروف ہے اس کے رضا کار غریب لوگوں میں کھانا تقسیم کرنے سے لے کر قرنطینہ میں موجود لوگوں کی امداد کرتے ہوئے نظر آئے، جس کا اعتراف دانشور، صحافی اور اینکرز حضرات بھی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ پورے ملک میں بھوکے افراد کو کھانا کھلا رہا ہے۔ ایدھی ٹرسٹ کے رضا کار کورونا سے ہلاک شدہ افراد کے لیے کفن دفن کا انتظام کررہے ہیں اور متاثرہ لوگوں کو قرنطینہ پہنچارہے ہیں۔ بے شمار ڈاکٹر ذاتی حیثیت میں کورونا اور دوسری بیماریوں کے معاملے میں لوگوں کو طبی مشورے دے رہے ہیں۔ اسی طرح اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور دوسرا عملہ ڈیوٹی انجام دینے کے ساتھ خدمت کے جذبے سے بھی کام کررہا ہے اور اس شعبے سے متعلق کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس صورت حال میں ہر مسلمان کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرے اور کورونا وائرس کے معاملے میں سنجیدگی دکھائے، گھروں تک محدود رہے اور اس دوران اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو بڑھایا جائے اور گناہوں پر استغفار کیا جائے۔