شکریہ ۔ کورونا

866

ڈاکٹر خالد مشتاق
یہ بہت بڑی مسجد ہے۔ شاید دنیا کی بڑی مساجد کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس مسجد میں کوئی پلر نہیں ہے۔ اسے گول مسجد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بہت خوبصورت۔ امام صاحب جو اس میں تلاوت کرتے ہیں ان کی آواز بھی بہت اچھی ہے۔ ماشاء اللہ۔ مسجد میں اندر نماز پڑھنے والے ایک نمازی مریض ہماری OPD آغا خان میں آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں چیسٹ میڈیسن میں پوسٹ گریجویشن کی ٹریننگ کررہا تھا۔ میں ڈاکٹر عبدالمجید میمن کے ساتھ آغا خان اور ہفتہ کے دن ایدھی میں، ضیاء الدین اسپتال ان کے سانس کی بیماری کے کلینک میں کام کرتا تھا۔ ہم جونیئر ڈاکٹر مریض سے تفصیلی ہسٹری لیتے۔ ڈاکٹر صاحب مریض کے پاس خود چل کر آتے۔ ہم تفصیل بتاتے اور پھر ڈاکٹر صاحب فائنل تشخیص اور علاج بتاتے۔
مریض کی صحت کے بارے میں آگاہی کی چند بنیادی باتیں بتاتے اور پھر جونیئر ڈاکٹر مریض کو تفصیلی مرض سے بچنے کے طریقے سمجھاتے تھے۔ مریض نے بتایا کہ اس نے حال ہی میں ڈیفنس میں رہائش اختیار کی ہے۔ دن میں تو وہ جاب پر ہوتا ہے، مغرب، عشاء، فجر کی نماز قریبی مسجد (گول مسجد) میں پڑھتا ہے۔ اسے کھانسی کا دورہ پہلے دن نماز کے دوران پڑا اور اس کا نماز پڑھنا مشکل ہوگیا۔ پھر چند دن وہ مسجد نہ جاسکا، پھر نماز میں اتنی کھانسی ہوجاتی تھی کہ نماز ادا کرنا مشکل ہوجاتا۔ تفصیلات معلوم کیں تو اس نے بتایا کہ پہلی رکعت میں رکوع تک تو کوئی مسئلہ نہیں رہتا لیکن سجدے کے دوران کھانسی شروع ہوتی ہے اور دوسری رکعت میں تو عجیب چیز ہوتی ہے۔ تقریباً 20 سے 25 فی صد نمازی کھانس رہے ہوتے ہیں۔ مسجد میں گنبد ہے، گول گنبد کے اندر نمازیوں کی کھانسی کی گونج بار بار آتی ہے اور اتنے سارے لوگوں کی کھانسی کی آواز کی گونج سے دوسری رکعت کی قرأت بھی صحیح نہیں سنی جاتی۔ بار بار آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔ تفصیل معلوم کی تو پتا چلا کہ مسجد کے قائم ہونے کے بعد نیکی کے جذبے کے تحت بہترین قالین بچھادیا ہے۔ ہزاروں گز بڑے قالین کی صفائی مشکل کام ہے۔ دھونا تو ناممکن ہے۔ مشین سے قالین صاف کرتے ہیں۔ کراچی میں اتنی گرد و غبار ہے کہ روز قالین میں گرد، ڈسٹ آتی ہے۔ روزانہ صفائی ممکن نہیں۔ اس مریض کو دیگر مریضوں کی طرح بتایا کہ قالین میں ڈسٹ کی وجہ سے کھانسی ہوتی ہے۔ ڈسٹ کے اندر ایک کیڑا ہوتا ہے، جسے dust mite کہتے ہیں۔ ڈسٹ مائیٹ، ڈسٹ میں رہتا ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ موجود نہیں تھا۔ اس لیے اسے تصویر نہیں دکھا سکے۔ آج کل جو مریض آتے ہیں انہیں تو dust mite دکھانا بہت آسان ہے۔ Googleمیں لکھ کر تلاش کرلیتے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ کی وجہ سے مریض کو نکال کر بتادیتے ہیں۔ وہ بہت تفصیل پڑھ کر اگلی مرتبہ آجاتا ہے۔ اسی طرح ایک بڑی مسجد کی کمیٹی کے صدر کا بیٹا جو IT میں ماسٹر کررہا تھا۔ پچھلے سال آیا، اسے سانس میں شدید تکلیف تھی، نیبولائز کرایا، الرجی کے بارے میں بنیادی باتیں بتائیں۔ وہ ڈسٹ مائیٹ کے بارے میں تفصیل پڑھ کر آیا، کہنے لگا ڈاکٹر صاحب دنیا میں جتنی بھی مخلوق ہے وہ کھاتی ہے، Potty کرتی ہے، ڈسٹ مائیٹ قالین میں رہتی ہے تو قالین میں Potty بھی کرتی ہے۔ تو Potty پر نماز نہیں ہوتی۔ میں نے یہ پڑھا تو اپنے ابا سے کہا مسجد سے فوراً قالین نکلوائو۔ ابا نے کوشش کی لیکن مسجد میں جھگڑا ہوگیا، مولوی صاحب نے کہا سب مسجدوں میں قالین ہے ہم نے اعلیٰ اور بہت مہنگا قالینWall to wall ڈلوایا لوگوں کو اس پر ابھارا کہ وہ مسجد کو قیمتی قالین دیں۔ یہ انگریزی کالج کا لڑکا کیسے کہہ سکتا ہے قالین کو جب تک 100 فی صد ڈسٹ سے پاک نہ کریں۔ اس میں ڈسٹ مائیٹ رہے گی۔ ڈسٹ مائیٹ کی Potty سے الرجی ہوتی ہے، کھانسی چھینکیں آتی ہیں، کیسے ممکن ہے ہر وقت ہم صفائی ہی کرتے رہیں، چند اور مسجد کمیٹی والے خاص طور پر جنہوں نے قالین Donate کرائی تھی مخالفت کرنے لگے۔ ان کے والد صاحب نے قالین پر بڑی بڑی چادر بچھوا دیں لیکن وہ بھی روزانہ گندی ہوجاتیں۔ ہم اپنے مریضوں کو کہتے کہ یا فرش پر نماز پڑھیں، یا اپنی جانماز گھر سے لے کر جائیں۔ میں خود بھی خاص طور پر جمعہ کی نماز میں اپنی جانماز لے کر جاتا ہوں۔ بہت منفی تبصرے سنتا رہا ہوں۔
آپؐ نے فرمایا: ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘
آغا خان کی OPD والا واقعہ 1993ء کا ہے ہم جیسے ہزاروں ڈاکٹر 30 سال سے سمجھارہے تھے گھروں میں رہنے والے خواتین و مردوں کو سمجھ میں آجاتا۔ لیکن مسجد کمیٹی اور دیگر صاحب علم یہ بات نہیں سمجھتے تھے۔ صفائی کی احادیث پر عمل مشکل نظر آتا لیکن آج 2020ء میں کورونا کے خوف نے تمام مساجد سے قالین نکلوادیا۔
لوگ صاف ستھرے فرش پر نماز ادا کررہے ہیں۔ پاکستان میں قالین والی مسجد میں نماز ادا کرنے والے کروڑوں افراد ڈسٹ مائیٹ کی الرجی، قالین کے ذریعے وائرس، زلزلہ، زکام، بیکٹریا کی بیماریوں سے بچ گئے۔ کورونا کے ڈر، خوف اور پریشر نے قالین ہٹوا دیے۔ ’’صفائی اسلام کا اہم ترین جز ہے‘‘۔ یہ کام کورونا نے کرادیا۔
کورونا سے بچائو پر اس مہم سے کروڑوں نمازیوں کو فائدہ ہوا ہے۔ یہ اللہ کی قدرت ہے وہ اپنی مخلوق کا فائدہ کرانے کے لیے کسی بھی چیز کو استعمال کرسکتا ہے۔ اس مرتبہ کورونا کے خوف نے یہ کام کردیا۔ شکریہ کورونا: آپ نے ہماری مساجد سے وائرس، بیکٹریا، الرجی پھیلانے والی قالین اُٹھوادیں۔