بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانی

495

حکومت نے اچانک پاکستان میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور تمام بین الاقوامی پروازوں کے ملک میں اتارنے پر پابندی عاید کردی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو پاکستانی اپنے ملک واپسی کے لیے سفر میں تھا ،ا سے راستے میں ہی رکنا پڑگیا ۔ اسی طرح جو لوگ دیگر ممالک سیر و سیاحت کے لیے گئے تھے وہ بھی وہیں پھنس کر رہ گئے ۔ دنیا کے سارے ممالک نے اپنے شہریوں کی وطن واپسی کے لیے خصوصی انتظامات کیے مگر پاکستانی حکومت کی ساری توجہ ایران سے زائرین کو لانے پر ہے ۔ اس کے علاوہ شاید عمران خان نیازی کے نزدیک پاکستان کے شہری ہی نہیں ہیں یا پھر دوسرے درجے کے شہری ہیں کہ ان کے حقوق ایران میں پھنسے پاکستانی زائرین سے کمتر ہیں ۔ شور و غوغا کے نتیجے میں بینکاک میں پھنسے ڈیڑھ سو پاکستانیوں کو سنیچر کو وطن لانے کا انتظام کیا گیا مگر تاشقند اور استنبول میں پھنسے پاکستانی ابھی تک امید بھری نظروں سے اپنے وطن کی جانب تک رہے ہیں ۔ اسی طرح دبئی میں پھنسے وہ پاکستانی جو روزگارکی تلاش میں وہاں گئے تھے اور اب لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مشکلات کا شکار ہیں ، وہ بھی وطن واپسی کے لیے اپیلیں ہی کررہے ہیں ۔ اپنے شہریوں کا تحفظ اور ان کے حقوق کی ادائیگی ہر مملکت کا پہلا اور بنیادی فرض ہے ۔ سوئیڈن جیسے ممالک تو اپنے شہریوں کو دنیا بھر سے وطن واپس لانے کے لیے چارٹر پروازوں کا انتظام کررہے ہیں اور یہاں پر یہ حال ہے کہ حکومت پاکستان بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے خصوصی پروازوں کی اجازت دینے سے ہی انکاری ہے۔ قومی فضائی کمپنی پی آئی اے نے برطانیہ اور کینیڈا کے لیے چار خصوصی پروازوں کا اعلان کیا تو اسے بھی منافع خوری کا ذریعہ بنالیا اورمعمول سے تین تا چار گنا قیمت پر ٹکٹ فروخت کیے گئے ۔ ذرائع ابلاغ میں جب اس بارے میں خبر شایع ہوئی تو پھر حکومت نے یہ خصوصی پروازیں ہی منسوخ کردیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پی آئی اے میں اپنی چہیتی انتظامیہ کی گوشمالی کرتی اور زایدوصول کیا گیا کرایہ مسافروں کو واپس دلواتی ۔ اس کے بجائے حکومت نے ان پروازوں کا اجازت نامہ ہی منسوخ کردیا۔ اس سے حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ جب سرکاری ادارے ہی لوٹ مار کرنے لگیں تو پھر سرکار کس طرح سے نجی شعبے کو لگام ڈالے گی ۔ یہ حکومت کی نیت میں فتور کا ہی نتیجہ ہے کہ اس وقت ہر طرف منافع خور سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ گھنٹوں کے حساب سے قیمتوں میں اضافہ کررہے ہیں ۔ پوری سرکاری مشینری ان گوداموں پر تو چھاپے ماررہی ہے جہاں پر مخیر حضرات نے چند سو بوریاں راشن کی خریدی ہوئی ہیں تاکہ انہیںضرورتمند شہریوں میں تقسیم کیا جاسکے مگر ان ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جنہوں نے ہزاروں بوریاں اپنے گوداموں میں ذخیرہ کی ہوئی ہیں ۔ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ مخیر حضرات تن من سے اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے باہر نکل آئے ہیں تو دوسری جانب سرکاری عمال جن کا کام ہی عوام کی خدمت ہے ، وہ لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔ اسی طرح تاجر حضرات کو نہ توموت کا خوف ہے اور نہ ہی اپنے رب کے سامنے جوابدہی کا کہ وہ اس نازک موقع پر نہ تو ذخیرہ اندوزی سے باز آرہے ہیں اور نہ ہی زاید قیمت وصول کرنے سے ۔ اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس موقع پر یہ تاجر اپنا منافع یا تو انتہائی کم کردیتے یا قیمت خرید ہی پر عوام کو اجناس اور دیگر اشیاء فراہم کرتے تاکہ اس وبا کے خلاف فتح میں ان کا بھی حصہ ہوتا اور وہ قوم کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے بھی سرخرو ہوسکتے ۔ اگر یہ تاجر باز نہیں آرہے تو حکومت ہی اپنا کردار ادا کرے ۔