متنازع کورونا وائرس اور عالمی سیاست و معیشت

843

اگر کورونا وائرس بولنے کی طاقت رکھتا تو بتاتا کہ وہ کس کی کارستانی ہے اس لیے دنیا بھر میں جو خبریں تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں وہ یک طرفہ بھی ہو سکتے ہیں اور ملکی سطح کے بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی بات حتمی طور پر نہیں کی جا سکتی یہاں تک کہ اس میدان کے سب سے بڑے کھلاڑی خود چین کے صدر کی بات بھی درخور اعتنا نہیں جانی جا رہی کہ کچھ عرصے پہلے امریکا سی آئی اے کے افراد فوجی وردی میں چین میں داخل ہوئے اور ان کے جانے کے بعد یہ مصیبت ان کے گلے پڑ گئی چین کی انٹیلی جنس اور طبی ماہرین نے یہ دعویٰ کردیا کہ اس وبا کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے لیکن امریکا نے اس کی کھلے الفاظ میں تردید کردی۔ لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ امریکا کچھ چھپا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکا چین کی بڑھتی ہوئی معیشت سے نہ صرف پریشان ہے بلکہ چین کی ترقی کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے امریکا نے بہت ہاتھ پائوں مارے کہ کسی طرح چین کی بڑھتی ہوئی معاشی چودھراہٹ کو قابو کیا جائے مگر تمام تر حربے اختیار کرنے کے باوجود چین کا معیشت کے میدان میں سفر کو نہ روکا جا سکا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد بہت سے یورپی ممالک نے چینی مصنوعات کی خریداری میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی اور چین ایک دن میں قریباً 15 ارب ڈالرکا یومیہ کاروبار کر رہا تھا جبکہ امریکا کی کمائی صرف 3۔5 ارب ڈالر پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ ہماری رائے میں برطانیہ نے بھی بریگزیٹ سے نکلنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا شاید اس فیصلے کے پیچھے بھی امریکا اور اسرائیل کا ہاتھ ہو۔ مگر شاید برطانیہ کو اس بات کا خمار چڑھا ہوا تھا کہ اس کے پیچھے امریکا کی طاقت ہے اب تاریخ پر ایک چھوٹی سے نظر ڈالیے امریکی اسٹیبلشمنٹ سے لیکر کانگریس تک برطانوی فتوحات کے مرہون منت ہیں یعنی امریکا کو ترقی کی راہ پر ڈالنے والے برطانوی ہی تھے جنہوں نے تین سو سال پہلے مقامی باشندوں جنہیں ریڈ انڈینز کہاجاتا ہے کا قتل عام کیا، بہر حال امریکی معیشت اور ترقی پر چھاپ برطانیہ ہی کی لگی ہوئی ہے اور پھر ان دونوں کی ملی بھگت سے اسرائیل کی ناجائز پیدائش بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ موقع تاریخ کے اوراق کھنگالنے کا نہیں بس اتنا کہنا تھا کہ ایک مثلث ہے جو امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک بھی یہی چاہتے تھے کہ برطانیہ ان کے اتحاد سے نکل جائے ورنہ دوسری صورت میں یورپی ممالک کو امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کی مثلث کے اندر رہنا ہوگا جو ایک طرح سے یورپ کے عوام کو اس مثلث کا غلام بنانے کے مترادف ہوگا۔ برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد خوف میں مبتلا ہے کہ اگر یورپ کی معیشت مضبوط ہو جاتی ہے اور یورپ امریکا کا باجگزار بننے سے انکار کی پوزیشن میں آجاتا ہے تو اکیلے امریکا اور اسرائیل کی حمایت اس کے لیے دنیا بھر میں اپنی پالیسیاں نافذ کرنے میں ناکافی ہوںگی۔
دوسرا تجزیہ یہ پیش کیا جا رہا ہے جو معاشی کم اور سیاسی زیادہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکا نے افغانستان، شام، عراق اور دیگر ممالک میں اپنی افواج کا بہت بڑا نقصان اٹھایا ہے اس پالیسی کے خلاف امریکی عوام میں تشویش بھی پائی جاتی ہے اور امریکا خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ عوام کا مزید غیظ و غضب برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتے اور چین سے وہ دو بدو جنگ بھی نہیں کر سکتے کہ اس کی بھی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ چین کا ویٹو پاور ہونا اور عالمی معیشت کے ریچھ کی حیثیت جس پر دنیا کے کھربوں ڈالر لگے ہوئے ہیں اور خود امریکا کی بہت سی ریاستیں امریکی مال پر چینی مال کو ترجیح دے رہی ہیں یہ خادم بھی امریکا کے متعدد شہروں میں رہنے کا تجربہ رکھتا ہے کہ جہاں چینی مصنوعات سے امریکی مارکیٹیں بھری پڑی ہیں ایسی صورت میں کہ جب امریکی کمپنیاں اپنا مال خود اپنے ہی ملک میں بیچنے سے قاصر ہیں تو ان کا تو دیوالیہ نکلنا ہی تھا۔ امریکا کی معیشت کسی حد تک اسلحہ کی فروخت پر مبنی تھیں لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ سامان حرب صرف جنگ زدہ ملک کی تو ضرورت ہو سکتا ہے مگر مکمل معیشت کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایک طرف اور جہاں ابھی تک کسی کی نظر نہیں گئی کہ امریکا اور جاپان کا 100 سال کا معاہدہ اختتام کے قریب ہے جس کے مطابق جاپان نے اپنی سیکورٹی کے ٹھیکے کے عوض امریکا سے جاپانی مصنوعات کے لیے امریکی مارکیٹ کا سودہ کیا تھا اسی ایک غلط معاہدے نے امریکا کی بڑی سے بڑی انڈسٹری کو ناکوں چنے چبوا دیے خاص طور پر آٹو انڈسٹری پر تو پورے امریکا میں جاپان ہی چھایا ہوا نظر آتا ہے جاپانی گاڑیوں نے اس وقت امریکی مارکیٹ پر اپنی گرفت اور مضبوط کرلی جب چند دہائیوں پہلے دنیا میں تیل کا بحران پیدا ہوا اور آج بھی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بنا پر جاپانی گاڑیاں ہی مارکیٹ پر چھائی ہوئی ہیں۔ چین چونکہ ویٹو پاور ہے اور اقوام متحدہ اور عالمی سیاست پر گہرا اثر رکھتا ہے اسی لیے امریکی مارکیٹ میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوا۔ امریکا اس وقت اپنی معیشت کو بچانے کے لیے چومکھی لڑنے پر مجبور ہے ایک طرف چین کی بڑھتی معیشت، جاپان سے سیکورٹی معاہدے کی معیاد کا پورا ہونا، اسلحہ کی مارکیٹ میں ٹھنڈ پڑنا اور افغانستان سے لیکر شام تک عالمی سبکی کے اثرات کو ختم کرنا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ کمیونزم کو روس میں سوشلزم کو چین میں اور کیپٹل ازم کو امریکا میں پناہ نہیں ملے گی۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ کمیونزم روس میں صرف ستر سال میں مر گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام اب نہ صرف امریکا بلکہ پورے یورپ اور پوری دنیا میں اپنی موت آپ مرنے کی تیاری کر رہا ہے چین کے سوشلزم کو امریکی سرمایہ دارانہ نظام ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھا ہے۔ دنیا کے ساہوکاروں نے مان لیا ہے کہ سودی کاروبار نہ صرف معاشرے کے لیے تباہ کن ہے بلکہ معیشت کے لیے بھی زہر قاتل ثابت ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پوری سلطنت کا سرمایہ چند ہاتھوں میں آجاتا ہے اور وہی سرمایہ دار پیسے کے زور پر نظام ہائے زندگی کی تشکیل کرتے ہیں لیکن اسلام کے منصفانہ نظام معیشت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ سلطنت کے سرمایہ میں ادنیٰ و اعلیٰ سب برابر کے شریک ہوتے ہیں اس لیے کساد بازاری چور بازاری اور سرمایہ کے چند ہاتھوں میں محدود رہنے کے امکانات کو ہی ختم کر دیتا ہے اب تو مغرب میں بھی اس نظام کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے کہ سرمایہ دار طبقے پر طنز کرتے ہوئے ایک سائنس محقق خاتون نے ٹوئٹ کیا ہے کہ یہ سرمایہ دار فٹ بال کے کھلاڑیوں میسی اور رونالڈو کو دس لاکھ یورو ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں جبکہ ایک محقق کو جو دوائیں بنا کر دکھی انسانیت کی خدمت کرتا ہے اس کو محض 1800 یورو تنخواہ ملتی ہے تو جائو کورونا کی ویکسین لیون میسی اور کرستیانہ رونالڈو سے بنوا لو۔
دوسری طرف مغرب کے ساہوکاروں نے کورونا سے متاثر قرض خواہوں کے لیے شرح سود صفر کردی ہے اب ان کو اندازہ ہو چلا ہوگا کہ سود معیشت کے لیے کتنی بڑی لعنت ہے ویسے تو مغرب کے کئی بینکوں میں سال ہا سال سے بلاسود بینکاری پر تجربات بھی ہو رہے ہیں اور قوی امید ہے بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ تجربہ کامیاب ہو جائے گا اور ایک دن آئے گا جب مغرب کے سرمایہ دار بلاسود بینکاری ہی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چین اپنے سوشلسٹ نظام سرمایہ داری کو بچا پائے گا یا امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ اگر چین تھوڑے حوصلے سے کام لے تو جہاں اس نے کورونا کی وبا سے نجات کے لیے خدا کو مان لیا اور قرآن کریم کی تقسیم سرکاری سطح پر کی جانے لگی ہے تو اس قرآن کریم کو کھول کر دیکھ لے کہ گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے سود سے پاک معاشی پالیسیاں کیسے بنائی جاتی ہیں اگر قرآن سمجھ نہیں آتا تو سید مودودیؒ اور دیگر مسلم مفکرین کی اس ضمن میں کتب کا مطالعہ کرلے۔
دنیا کے سیاسی نظام اور مفادات پر نظر ڈالی جائے تو امریکا، برطانیہ اور اسرائیل ایک طرف اور پورا یورپ دوسری طرف متحارب نظر آتے ہیں امریکا کے دو بغل بچوں کو یورپ کے دیگر ممالک سے اس لیے پرخاش ہے کہ وہ ایک طرح سے چین کے بلاک میں کھڑے نظر آ رہے ہیں جبکہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور ایران پر امریکی بلاک کی تلوار پہلے سے لٹک رہی ہے ترکی تو اپنی مضبوط سیاسی اور معاشی نظام کی بدولت اس کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر سعودی عرب صرف پیسے کے زور پر ان کو زیر نہیں کرسکتا، رہے پاکستان اور ایران وہ دونوں ہی سطح پر کمزور ہیں اس لیے ایک لمبے عرصے تک کسی نہ کسی کے اشاروں پر چلنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا وجدان کہتا ہے کہ امریکا اور اس کے حواریوں کا یورپ کے ساتھ ہونے والا سیاسی، معاشی اور اقتصادی جھگڑا کم نہیں ہوگا بلکہ اس میں مزید تیزی آئے گی۔
ابھی تو یہ یورپی ممالک اس انتظار میں ہیں کہ کسی طرح کورونا کی مصیبت سے جان چھڑائی جائے پھر امریکی فیملی سے نمٹا جائے گا یہ وہ وقت ہوگا جب تیسری دنیا خاص طور پر مسلم ممالک کے پاس دس سے پندرہ سال کا عرصہ ہوگا کہ وہ امریکا اور یورپ کی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو اقتصادی معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کرلیں بہتر ہوگا کہ پاکستان اور ترکی کی قیادت میں ایک بڑے بلاک کی تشکیل کر لیں تاکہ یکجا ہو کر امریکا اور یورپ دونوں کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ بات اس لیے بھی وزن رکھتی ہے کہ ترکی کا یورپ کے ساتھ ہونے والا معاہدہ 2023 میں ختم ہو رہا ہے جس کی پیش بندی یورپ تو کرچکا ہے مگر آسیان اور دیگر اسلامی ممالک نے ابھی تک اس طرف کوئی پیش قدمی نہیں کی۔ یہ وہ وقت ہوگا جب ترکی مغرب کی قید سے آزاد ہو کر مغربی ایشیا کا ٹائیگر بن کر کھڑا ہوگا اس کے اس عزم حوصلے اور ترقی سے فائدہ اٹھانے کا پاکستانی حکمرانوں کے پاس اچھا موقع ہوگا۔ پاکستان اور ترکی دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایک مضبوط اقتصادی بلاک بنا سکتے ہیں ایک قوت کے طور پر ابھرنے کے لیے مشترکہ فوج تشکیل دی جا سکتی ہے اس بلاک کے کسی ملک پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے ممکن ہو تو ایک کرنسی یا رکن ملک کی کرنسی کو بلاک میں بلاروک ٹوک استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ ایک کی اگر کرنسی مضبوط ہوگی تو سب کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ مشترکہ میڈیکل سسٹم بنایا جا سکتا ہے کہ رکن ممالک ایک دوسرے کے طبی تجربات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ کورونا ایک ایسا متنازع وائرس ہے جس سے پہلے کوئی وائرس اتنا متنازع نہیں ہوا تھا۔ کیا یہ جراثیمی جنگ کا نقطہ آغاز ہے جو چین، یورپ اور امریکا کے درمیان چھڑنے والی ہے۔