’’ یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو‘‘

663

پورا ملک لاک ڈائون کا مطالبہ بھی کر رہا ہے مگر پورا ملک سڑکوں پر بھی ہے جو تھوڑی بہت بے رونقی نظر آرہی ہے حکومت کی دھمکیوں، تعطیلات اور ہلکی سے سختی کا نتیجہ ہے۔ اس احتیاط یا بے رونقی میں شاید دوسے چار فی صد حصہ رضاکارانہ طور پر گھروں میں مقید ہونے والوں کا ہو۔ اگر حکومت کچھ حفاظتی اقدامات نہ کرتی تو میڈیا کی چیخ وپکار اور عالمی سطح پر سنائی دینے والے خطرے کے الارم ہمارے اجتماعی لاپروا رویے میں صدا بصحرا ثابت ہوتے۔ اٹلی، چین اور دوسری جگہوں میں مقیم پاکستانی جنہوں نے اس بربادی کو قریب سے دیکھا اپنے ہم وطنوں کے رویے کو دیکھ کو خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ جسے موقع ملتا ہے لاک ڈائون سے نظر بچا کر ویران اور سنسان سڑکوں کی وڈیوز اپ لوڈ کر کے اپنے ہم وطنوں کو بتا رہا ہے کہ خطرہ حقیقی ہے۔ اٹلی میں تیس سال سے مقیم ایک پاکستانی نے دن کے بارہ بجے شہر کے وسط میں ایک پررونق تفریح گاہ اور اس کے قریب آبادی کی وڈیو اپ لوڈ کی ہے۔ اس وڈیو میں اٹلی کی قدیم طرز کی پرشکوہ عمارتیں بھوت بنگلے دکھائی دے رہے ہیں اور وسیع گلیاں اور سامنے ایک بڑی تفریح گاہ انسانوں کی دید کو ترستی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ شخص رو رو کر پاکستانیوں کو، اپنے عزیر واقارب کو بتا رہا ہے کہ اس خطرے کو مذاق نہ سمجھیں۔ چین کے شہر ووہان سے پی ایچ ڈی کی غرض سے مقیم ایک پاکستانی نوجوان نے بھی پرنم آنکھوں سے اہل وطن کو سمجھایا ہے کہ احتیاط میں دیر نہ کی جائے۔ برطانیہ سے پلٹ کر آنے والا ایک نوجوان جو سیلف آئیسولیشن میں ہے آنے والے مناظر کا خوف دلاتے ہوئے روپڑا۔ اسی دوران معروف شاعر بشیر بدر کی برسوں پہلے ایک مشاعرے میں ترنم سے پڑھی گئی نظم بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں بشیر بدر آج کی نسل اور انسان سے مخاطب ہوں۔
یونہی بے سبب نہ پھر کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
اس وقت تک کورونا سے نمٹنے کا واحد شافی نسخہ یہی ہے جس کی نشاندہی بشیر بدر نے کی ہے یعنی عوام کی نقل وحرکت محدود کر دی جائے۔ حکومت کے اندر اور حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اسی بات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ چند دن قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایسے حالات نہیںکہ ملک میں مکمل لاک ڈائون کیا جائے۔ اس کی وجہ انہوں نے روز کی بنیاد پر کام کرکے کمانے والے افراد کی مشکلات بتائی تھی۔ وزیر اعظم نے تعمیراتی صنعت سے وابستہ افراد کو مراعات دینے کا اعلان بھی کیا تھا تاکہ ملک میں تعمیراتی سرگرمیاں جاری رہیں جس کے ذریعے مزدوری پیشہ لوگوں کا چولہا بھی جلتا رہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ملک کے ہر طبقے کا مفاد اور معاملات ومسائل کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ ایک طرف جہاں کورونا سے عوام کو بچانا بھی ضرروی ہیں وہیں غریب طبقے کو کورونا کے بجائے بھوک سے مرنے سے بھی بچانا ہے۔ اس کا کیجیے کہ خود ہمارے عوام کا رویہ حکومت کو لاک ڈائون کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمارے بازاروں میں اس قدر بھیڑ لگی ہوئی ہے کہ کھوے سے کھوا چلتا ہے۔ معانقے اور مصافحے حسب روایت جاری ہیں۔ ڈیرے اور دالان آباد ہیں، ہوٹل اور ریستوران گاہکوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ شاپنگ مالز کی رونقیں بھی پوری رفتار کے ساتھ جاری ہیں۔ ماسک پہننا ابھی تک آئوٹ آف فیشن ہے۔ انسانوں کے درمیان جس فاصلے کی ضرورت ہے محفلوں اور راستوں میں اس کا بھی کہیں خیال نہیں رکھا جا رہا۔ یوں لگ رہا ہے کہ ہمارے لوگ اس خطرے کی سنگینی کو سمجھنے سے قطعی قاصر ہی نہیں انکار ی ہیں۔
آفات اور مصائب کسی کی تسلیم ورضا کے محتاج ہوتے ہیں نہ اس کا انتظار کرتے وہ خاموشی سے شکار کی دہلیز پار کرتی ہیں۔ یہاں تو آفت ہماری سرحدوں کے اند ر داخل ہو چکی ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے پنجے سوسائٹی میں گاڑ رہی ہے اس کا ثبوت کورونا کے مریضوں کی تعداد میں ہر روز ہونے والا اضافہ ہے۔ ابھی تو یہ تعداد کنٹرولڈ انداز سے بڑھ رہی ہے خدانخواستہ اگر یہ لہر کی شکل اختیار کر گیا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ وناصر ہے۔ چین سے اٹلی تک کورونا کی تباہ کاریاں دور کی بات نہیں لمحہ موجود کا قصہ ہے۔ ابھی بھی کورونا کی ڈائن بال کھولے نگر نگر گھوم رہی ہے۔ ایسے میں کوئی ملک ومعاشرہ اس معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ اپنانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہمارے رویے یہی رہے اور ہم نے قومی طور پر ذمے دارانہ رویہ اپنا کر بازاروں اور گلیوں کی بھیڑ کم کرکے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں تو پھر حکومت کے پاس کچھ مدت کے لیے لاک ڈائون اور کرفیو کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اس کا نقصان پھر کم وزیادہ سہی مگر ہر شخص کو ہوگا۔ غریب اور دہاڑی دار مزدور شاید اس سے زیادہ متاثر ہوں مگر امیر اور صاحب ثروت بھی اس صورت حال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ حفاظتی تدابیر اختیار نہ کرنے والے حقیقت میں حکومت کے اعصاب اور صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکومت اگر سخت اقدامات نہ اُٹھانے کے حوالے سے تنقید کی زد میں آئے گی تو اسے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ عوام شعور اور ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھروں میں رہ کر حکومت کے ساتھ تعاون کا مظاہرہ کریں گے تو حکومت کو بھی لاک ڈائون اور کرفیو جیسے فیصلوں سے دور رہنا پڑے گا مگر عوام نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو حکومت پھر طاقت سے اپنے فیصلے منوائے گی اور اس زورا زوری میں غریب طبقات کا نقصان ہوگا۔ حکومت کی حکمت کو کمزوری سمجھنا خود فریبی ہے۔ حکومت جب اپنا ذہن بنالیتی ہے تو وہ اپنے فیصلے منوا کر دم لیتی ہے۔ عوام کو بہرطور لاک ڈائون کے لیے بھی ذہنی اور عملی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ یہ معاملہ اب اس بات پر منحصر ہے کہ کورونا کی وباء حکومت کے قابو میں رہتی ہے یا بے قابو ہوتی ہے۔ دوسری صورت میں عوام کی جان بچانے کے لیے کوئی بھی تلخ فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔