شعائر اسلامی کو نہ چھیڑا جائے

682

ملک بھر میں کورونا سے متعلق لاک ڈائون یا کرفیو کی سی کیفیت ہے اور توقع یا خدشات کے عین مطابق حکومت نے وہ کام کردیا جس کے عزائم ظاہر کیے جا رہے تھے یعنی مساجد اور جمعہ کے اجتماعات پر پابندی۔ اس معاملے میں بحث اور علما کے فتوے بھی اپنی جگہ اصل خرابی یہ تھی کہ دو روز کے مباحثے اور غور وفکر کے بعد علمائے کرام نے 14 روز کے لیے بند گورنر ہائوس جا کر پریس کانفرنس کی تھی اور نماز جمعہ کے حوالے سے ایک متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کیا تھا۔ علمائے کرام نے 25 مارچ کو قرار دیا تھا کہ 50 برس سے زیادہ عمر کے افراد کھانسی، نزلے کے مریض اور بچے مساجد نہ آئیں۔ خطبہ اور وعظ مختصر ہو اور نماز بھی مختصر پڑھائی جائے گی۔ نمازیوں کو احتیاطی تدابیر سے آگہی دی جائے گی۔ لیکن 26 مارچ کی رات کو حکومت سندھ کے ترجمان نے نماز کے اجتماعات اور جمعہ کی نماز پر پابندی کی خبری جاری کردی۔ سوال یہ ہے کہ علمائے کرام کے ساتھ جس بات پر اتفاق رائے ہو گیا تھا اس پر بعد میں نیا فیصلہ تھوپنے اور علما کو اعتماد میں لیے بغیر اس کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہی بات 25 تاریخ کی رات بھی کی جاسکتی تھی۔ اس طرح نماز اور جمعے کے اجتماع کے حوالے سے بھی اچھی خاصی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ رات گئے چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن اور دیگر علما نے بیان جاری کیا کہ ہمارے 25 مارچ کے فیصلے کے بارے میں غلط خبر نشر کی گئی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمعہ کو مساجد کھلیں، نمازی آئے اور اس طرح آئے جس طرح علمائے کرام کے 25 مارچ کے اعلان میں کہا گیا تھا۔ نمازیں بھی مختصر پڑھائی گئیں اور مساجد میں صفائی کا بھی خیال رکھا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں جامعہ ازہر کے فتوے پر اتفاق نہیں کیا گیا۔ مفتی منیب کے بقول صدر نے ہمارے اعلامیے پر اتفاق کیا۔ مفتی عبدالرزاق نقشبندی نے کہا کہ پاکستان میں جامعہ ازہر یا سعودی فتویٰ نہیں چلتا، مقامی علما کا فتویٰ چلے گا۔ نماز کے اجتماع کے حوالے سے مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس میں لوگ خاصے قریب ہوتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو سرکاری اجلاسوں، وزیراعظم کی مصروفیات اور اپوزیشن لیڈروں کی مصروفیات میں کہیں بھی احتیاط کا اہتمام نہیں کیا جارہا۔ مزید یہ کہ پولیس جن لوگوں کو راستوں میں پکڑ رہی ہے انہیں ایک ہی گاڑی میں ٹھونس ٹھونس کر تھانے لے جایا جا رہا ہے تو کیا یہ لوگ قریب قریب نہیں ہیں۔ کیا کورونا صرف جمعہ کی نماز سے پھیل رہا ہے۔ اب تو جمعہ کے دن مساجد کے دروازوں پر سینی ٹائزر اور اسکینرز کا بھی اہتمام ہو سکتا ہے۔