شعبان کی فضیلت

1703

ڈاکٹر مفتی احمد خان

شعبان المعظم اسلامی کیلنڈر کے مطابق آٹھواں مہینہ ہے، اس ماہ کی بہت سی فضیلتیں احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئیں ہیں۔
شعبان کی نسبت رسول اللہؐ کے ساتھ
اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ (کنزالعمال)
شعبان کے چاند اور تاریخ کا اہتمام
آپؐ نے امت کو حکم فرمایا کہ ’’رمضان کے لیے شعبان کے چاندکو اچھی طرح یاد رکھو‘‘۔ (ترمذی)
شعبان میں برکت کی دعا
انسؓ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہؐ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اللّٰھمَّ باَرِک لَنَا فیِ رَجَبَ وَشَعبَانَ وَبَلِّغنَا رَمَضَان۔
’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا‘‘۔ (مسند احمد)
روزوں کا اہتمام
ایک فضیلت یہ ہے کہ آپؐ رمضان کے بعد سب سے زیادہ اس ماہ میں روزوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسولؐ کو کبھی پورے مہینے کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان کے۔ اس کے تقریباً پورے دنوں میں آپؐ روزے رکھتے تھے۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)
شعبان کے روزوں کا اہتمام
اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ سے سوال کیا کہ میں آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزے رکھتے نہیں دیکھا؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں، اس ماہ میں اللہ تعالی کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں۔ (نسائی، مسند احمد، ابوداؤد)
ایک دفعہ عائشہؓ نے رسولؐ سے معلوم کیا کہ کیا آپ شعبان کے روزے بہت پسند کرتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سال انتقال کرنے والوں کے نام اس ماہ میں لکھتا ہے، میری خواہش ہے کہ میری موت کا فیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزے سے ہوں۔ (ابو یعلی) بعض دیگر احادیث میں شعبان کے آخری عشرے میں روزے رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے تاکہ رمضان کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو۔
رمضان کی تیاری کا مہینہ
سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخوں میں آپؐ نے ایک خطبہ دیا، (اس خطبے میں رمضان کی عظمتوں، برکتوں اور فضیلتوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا۔ (ترغیب وترہیب)
پندرہ شعبان کا روزہ
15 شعبان کا روزہ ثابت نہیں، پس کوئی شخص اس نیت سے روزہ رکھے کہ یہ ایّام بیض میں شامل ہے تو گنجائش ہے، لیکن 15 شعبان کے روزے کے مخصوص ثواب کے اعتقاد سے روزہ رکھنا درست نہیں۔ (فتاوی عالمگیری، فتاوی تاتارخانیہ)
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں: کوئی15 شعبان کا روزہ اس نیت سے رکھے کہ شعبان کا دن ہے، اور پورے شعبان کے مہینے میں روزے رکھنے کی فضیلت ہے، اور اس وجہ سے رکھے کہ 15 تاریخ ایام بیض میں داخل ہے، تو ان شاء اللہ موجبِ اجر ہوگا، لیکن خاص 15 تاریخ کے روزے کی خصوصیت کے لحاظ سے اس روزے کو سنت قرار دینا بعض علما کے نزدیک درست نہیں۔ (اصلاحی بیانات)
شبِ برأت کی بدعات
شب برأت میں بہت سی ایسی خرافات اور بدعات کی جاتی ہیں جن کا دین اسلام اور شریعت ِمحمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
حلوا پکانا، آتش بازی کرنا، اجتماعی طور پر قبرستان جانا، قبرستان میں عورتوں کا جانا، قبرستان میں چراغاں کرنا، مختلف قسم کی ڈیکوریشن کا اہتمام کرنا، عورتوں اور مردوں کا اختلاط کرنا، قبروں پر چادر چڑھانا، مسور کی دال پکانے کو ضروری سمجھنا، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس رات میں مُردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور یہ دیکھتی ہیں کہ ہمارے لیے کچھ پکایا ہے یا نہیں۔ یہ باتیں بغیر دلیل کے ہیں، لہذا یہ اعتقاد صحیح نہیں۔ حکیم الامتؒ فرماتے ہیں: جو روحیں جنت میں ہیں ان کو آپ کے پکائے ہوئے کی ضرورت نہیں اور جو جہنم میں ہیں ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شبِ برأت سے پہلے کوئی مرجائے تو جب تک اس کے لیے شبَ برأت میں فاتحہ نہ کی جائے وہ مُردوں میں شامل نہیں ہوتا۔ یہ بے اصل بات ہے۔
’’مغرب کی نماز کے بعد دو دو کر کے چھے رکعت پڑھنا اور ہر دو رکعت کے درمیان سورہ یٰسین پڑھنا‘‘ یہ بھی ثابت نہیں، سنت سمجھ کر یا شبِ برأت کا مخصوص عمل سمجھ کر کرنا بدعت اور ناجائز ہے۔
حکیم الامتؒ فرماتے ہیں: بعض لوگوں نے اس رات میں برتنوں کا بدلنا، گھر کا لیبنا، کلی چونا، رنگ وروغن اور چراغوں کا زیادہ روشن کرنا وغیرہ بدعت (اختیار) کرلی ہے یہ بالکل کفار کی نقل ہے اور حدیث تشبہ سے حرام ہے۔ (اصلاح الرسوم)
ان خرافات اور بدعات کے متعلق مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ فرماتے ہیں:
اس رات میں نفلی عبادت کرنا، (کبھی) موقع ملے تو چپکے سے قبرستان جاکر مُردوں کے لیے دعائے خیر کرنا، کرنے کے کام ہیں (جائز ہیں)۔ لیکن نفل کی جماعت کرنا، قبرستان میں جمع ہو کر تقریب کی صورت بنانا، آتش بازی کرنا، حلوے کا التزام کرنا جائز نہیں۔ (فتاوی محمودیہ، ادارہ الفاروق کراچی)
شب برأت میں قبروں پر روشنی کرنا اور اگر بتی جلانا رسمِ جہالت ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ (فتاوی محمودیہ)
ان راتوں میں شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت، ذکر وتسبیح، دعا، استغفار کی ترغیب دی ہے، پھول وغیرہ سے سجانے کی ترغیب نہیں دی۔ مسجد میں جمع ہوکر اجتماعی حیثیت سے جاگنا مکروہ اور ممنوع ہے۔ (فتاوی محمودیہ)
شب برأت میں بلا کسی قید و خصوصیت کے مطلق نماز کا ثبوت ہے، ہر شخص اپنے طور پر عبادت کرے، جس میں نمائش یا کسی اور ہیئتِ مخصوصہ کی پابندی نہ ہو تو مستحسن ہے، اور اگر اس میں رسوم اور ہئیتِ مخصوصہ کی پابندی ہوگی تو بدعت ہے۔ 15 شعبان کو مزاروں پر جانا منع نہیں ہے لیکن 15شعبان کی وجہ سے مسنون بھی نہیں ہے۔ (فتاوی محمودیہ)
مفتی رشید احمد لدھیانویؒ فرماتے ہیں: جمہور انفراداً عبادت کے قائل ہیں، اس پر پوری امت کا اجماع ہے، اس رات میں کسی قسم کی عبادت کی تعیین، مختلف قسم کے تقییدات واجتماعات وغیرہ سب خرافات و بدعات ہیں۔ (احسن الفتاوی)
قبر ستان جانے کا حکم
اس رات میں قبرستان میں جا کر اپنے عزیزوں کے لیے ایصال ثواب کرنا، دعائیں مانگنا اچھی بات ہے۔ احادیث میں اس کا حکم ہے، کبھی کبھی زیارت قبور کے لیے جانا چاہیے، لیکن خاص اس رات میں جانا، پھر وہاں جا کر مختلف قسم کی خرافات کا انجام دینا۔ چراغاں کرنا، اگربتی جلانا، ٹولیوں کی شکل میں جانا اور آنا، خصوصاً عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا، یہ سارے کام شریعت کے خلاف ہیں۔ ایسے موقع پر عورتوں کا قبرستان جانا سخت گناہ کا کام ہے۔ اسی طرح مردوں کے لیے بھی اس رات میں قبرستان جانے کو ضروری سمجھنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ: شب برأت میں قبرستان جانے کا خاص اہتمام کوئی ضروری نہیں ہے، کیوں کہ پوری زندگی میں نبی کریمؐ سے صرف ایک مرتبہ اس رات میں قبرستان جانا ثابت ہے۔
مسئلہ: شب برأت میں پوری رات جاگنا ضروری نہیں ہے، جتنا آسانی سے ممکن ہو عبادت کرلیں اور ساتھ میں اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی شخص کو آپ کے جاگنے کی وجہ سے تکلیف نہ ہو۔