حفاظتی آلات سے محروم طبی عملہ

432

ملک میں کورونا کی ایمرجنسی جاری ہے ۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے ۔ ایسے میں طبی عملے کو شاباش ہے کہ وہ شب و روز اپنے فرائض تندہی سے انجام دے رہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کا مقصد واضح ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے ۔ ایسے میں اگر کسی جگہ سے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے یقینی حد تک امکانات موجود ہیں تو وہ یہی اسپتال ہیں ۔ پہلے بھی حکومت سے خصوصی طور پر سندھ حکومت سے اپیل کی جا چکی ہے کہ وہ فرنٹ لائن پر موجود طبی عملے کی اس فورس کو مناسب حفاظتی آلات مہیا کرے جس میں دستانے ، خصوصی ماسک ، گاؤن اور سینیٹائزر شامل ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر حکومت کی توجہ اسی طرف نہیں ہے ۔ پوری دنیا میں اسپتالوں میں موجود عملے کو دیکھیں تو اسے پورے انتظامات کے ساتھ دیکھیں گے ۔ پاکستان میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے طبی عملے کو خودکش مشن پر بھیج دیا ہے ۔ اس پر مزید سرکاری عمال اور وزراء کا رویہ ہے ۔ پنچاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ڈاکٹر اپنے لیے ماسک اور دیگر چیزوں کا بندوبست خود کریں ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ فوج کو بغیر اسلحے کے سرحد پر لڑنے کے لیے روانہ کردیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اسلحے کا انتظام خود کرو۔ برطانیہ جیسے ملک میں جہاں پر طبی عملے کے لیے سارے ہی بندوبست موجود ہے ، ڈاکٹروں نے غیر تسلی بخش انتظامات کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انہیں ذاتی حفاظت کے لیے ضروری آلات فراہم نہ کیے گئے تو وہ ایسی ملازمت ہی چھوڑ دیں گے ۔اسپتال میں موجود عملے کو ضروری حفاظتی آلات مہیا نہ کرنے کا مطلب واضح ہے کہ حکومت کی اپنی کارکردگی محض زبانی جمع خرچ تک محدودہے ۔ اگر چاروں صوبوں کا تقابل کیا جائے تو سندھ کی کارکردگی سب سے نیچے ہی نظر آتی ہے ۔ جو حکومت اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا انتظام بہتر نہ کرسکے ، ڈاکٹروں کو ضروری حفاظتی سامان مہیا نہ کرسکے وہ مریضوں کو ادویات اور سہولیات کس طرح سے مہیا کرے گی ۔ سول اسپتال چلے جائیں کہ جناح اسپتال ، حالات ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں کہ سہولیات ندارد ۔ ادویہ کی تو بات ہی نہ کی جائے ، لیبارٹری اور آپریشن تھیٹر وغیرہ میں بھی ضروری سہولیات مہیا نہیں ہیں ۔ جناح اسپتال میں تو پانی جیسی بنیادی سہولت ہی موجود نہیں ہے ۔عباسی شہید اسپتال بلدیہ کراچی کے زیر انتظام اسپتال ہے جہاں پرکرپشن کی یہ صورتحال ہے کہ ایک باتھ روم بنانے پر ہی دس لاکھ روپے خرچ کردیے گئے ۔ اس اسپتال میں اگر کسی صحت مند فرد کو بھی داخل کردیا جائے تو وہ ایک دن کے بعد ہی کئی امراض کا شکار ہو کر نکلے گا ۔ اس کا بجٹ تو موجود ہے مگر سہولیات کسی قسم کی نہیں ۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر موجود ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ میئر کراچی وسیم اختر کو اس اسپتال میں داخل رکھا جائے تو شاید یہاں کی صورتحال بہتر ہوسکے ۔ ہر طرف خبریں ہیں کہ علاج کے لیے اتنے کروڑ روپے حکومت نے جاری کردیے ہیں مگر جاری ہونے کے بعد یہ بھاری رقم جا کہاں رہی ہے ۔ جب مریض پیسے دے کر ٹیسٹ کروارہے ہیں ، پیسے دے کر ادویہ خرید رہے ہیں ، ڈاکٹر اپنی جیب سے ماسک اور دستانے خرید رہے ہیں ، تو پھر کیا یہ کروڑوں روپے دیگر وزراء اورمیئر کراچی وسیم اختر کی جیب میں جارہا ہے۔ وزیرا علیٰ سندھ شاباشی سمیٹ رہے ہیں کہ انہوں نے کورونا سے بچاؤ کے لیے بروقت اقدامات کیے ۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اسپتالوں کے عملے کو حفاظتی کٹ نہیں دی تو یہ وائرس شہریوں کو نقصان پہنچائے یا نہ پہنچائے البتہ اسپتالوں کا عملہ اس کا آسان ہدف ہوگا ۔وزیر اعلیٰ سندھ اور میئر کراچی اس جانب خصوصی توجہ کریں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ برطانیہ کی طرح پاکستان کے ڈاکٹر بھی نامناسب صورتحال کی وجہ سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں ۔ کچھ صورتحال ڈاکٹروں اور طبی عملے کی آمدورفت کی بھی ہے ۔ایک جانب آئی جی سندھ نے بیان دیا ہے کہ پولیس اہلکار ڈاکٹروں کو سیلوٹ کریں تو عملی صورتحال یہ ہے کہ پولیس و رینجرز اہلکار اسپتالوں کے طبی عملے کو اسپتال جانے کی اجازت ہی نہیں دے رہے ۔ میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے عملے نے بتایا کہ اسپتال کے عملے کو لے کر اسپتال کی وین آرہی تھی کہ پولیس اہلکاروں نے کہا کہ اس میں چار سے زاید لوگ موجود ہیں اس لیے اسے آگے نہیں جانے دیا جائے گا اور یوں وین کو واپس بھیج دیا گیا ۔ آئی جی سندھ پولیس بتائیں کہ اگر اسپتال کی وین کو عملے کو لانے لے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو پھر اسپتال کس طرح چلیں گے ۔ انہیں علم ہونا چاہیے کہ اسپتال میں ہر شخص اہم ہوتا ہے ۔ آپریشن تھیٹر میں سرجن کے ساتھ ساتھ نرسنگ اسٹاف اور ٹیکنیشین بھی یکساں اہمیت کے حامل ہیں ۔ اسپتال کی وین واپس کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس روز اسپتال میں نومولودبچوںکو ویکیسین نہ لگ سکی اور نرسنگ اسٹاف کی قلت کا بھی سامنا رہا ۔ کیا ہی بہتر ہو وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی پسند کے مطابق تعینات ہونے والے آئی جی سندھ پولیس اہلکاروں کو اس ضمن میں واضح احکامات دیں ۔ اسی طرح ڈی جی رینجرز بھی رینجرز اہلکاروں کو ہدایات دیں کہ وہ بھی معاملات کو سمجھیں کہ کس کا جانا ضروری ہے ۔ ضرورت پڑنے پر یہ طبی عملہ ہی ان کی بھی جان بچاتا ہے ۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ تم لوگوں نے گالی دی تھی ، آنے نہیں دیا تھا اس لیے علاج سے معذرت ۔