کورونا وائرس کیا بھوک سے مارا جائے گا؟

608

محمد انور
کورونا وائرس سے دنیا بھر میں انسانی جانیں ختم ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ خطرناک مرض پاکستان میں بھی پہنچ چکا۔ یہاں بھی کورونا کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اور اس سے مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی، جو اطلاعات اور خدشات ہیں، وہ بیان سے باہر ہے۔ اس وائرس نے تھوڑی سی غفلت اور احتیاط میں تاخیر کے باعث جیتے جاگتے اٹلی کی سڑکوں کو غیر مدفون لاشوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔ اٹلی حکومت نے جمعہ کو بتایا تھا کہ اس وائرس سے 627 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور 14 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں جہاں وائرس سے تقریباً ساڑھے چھ ہزارافراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے جو چین سے بھی زیادہ ہے۔ امریکا اور انڈیا نے 22 مارچ سے ایک ہفتے کے لیے بین الاقوامی پروازوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین نے 30 روز کے لیے یونین کے باہر سے تمام مسافروں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ امریکا میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 25 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے اور واشنگٹن نے اپنے شہریوں کو بیرون ملک سفر کرنے سے منع کر دیا ہے۔
ہمارے ملک کی مرکزی حکومت ابھی تک حفاظتی انتظامات کے حوالے یہ طے نہیں کرسکی کہ لاک ڈاؤن کرنا ہے یا نہیں۔ جبکہ ملک کی جماعت اسلامی سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتیں حفاطتی انتظامات کے تحت لاک ڈاؤن کی حمایت میں نظر آرہی ہیں۔ تاہم صوبے سندھ کی حکومت نے اتوار سے کراچی سمیت صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کردیا ہے۔ سندھ کے وزیر اطلاعات وبلدیات ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت نے سیاست کو ’’کرونٹائن‘‘ میں رکھ دیا ہے۔ کاش یہ کام حکومت پہلے ہی کرلیتی تو ’’کرپشن وائرس‘‘ سے بھی جان چھوٹ جاتی۔ کورونا وائرس سے تو ان شاء اللہ صوبے کے لوگوں کی جان جلد چھوٹ جائے گی لیکن لوگوں کو ڈر ہے کہ کورونا وائرس کے نام پر حکومت مزید کرپشن سے اپنے ہاتھ نہ دھولے۔
کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہونے والے نقصانات کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ وائرس سندھ کے لوگوں کے ذریعے کراچی میں آیا اگر سندھ حکومت ایران سے واپس آنے والے زائرین کو ایران ہی میں یا تفتان میں مزید ایک ماہ کے روکے رکھتی تو کم ازکم سندھ صوبے کی یہ صورتحال نہیں ہوتی جو اب ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ بھی ہیکہ سندھ حکومت آئیسولیشن کے لیے غیر معمولی اقدامات کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ گلشن اقبال حسن اسکوائر کے قریب واقع ایکسپو سینٹر میں اس مقصد کے لیے چھ سو بستروں پر مشتمل آئیسولیشن سینٹر پاک فوج کے تعاون سے قائم کرکے مریضوں کا انتظار شروع کردیا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کوئی نیا کیس سامنے آئے۔ بہرحال صوبائی حکومت نے کورونا وائرس کے مزید پھیلائو سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرکے بہتر ہی کیا ہے۔ کیونکہ اس وائرس سے بچاؤ کا آسان اور واحد حل یہی ہے کہ خود کو سارے سماجی و معاشرتی معاملات سے جدا کرکے اپنی سرگرمیاں اپنے گھر اور بیوی بچوں تک محدود کردی جائے۔
قرنطینہ لفظ اطالوی زبان کے لفظ quaranta giorni سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چالیس دن۔ ریکارڈ کی گئی انسانی تاریخ میں 3 بار پلیگ ( بیکٹیریا) نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ پہلی بار بازنطینی سلطنت کا صفایا 541- 542 AD میں کیا۔ پھر آیا یورپ کا بلیک ڈیتھ جو 1348 عیسوی سے شروع ہوا تو 4 سال میں 25 ملین افراد یعنی یورپ کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی نگل گیا۔ اس دوران جو تجارتی جہاز شہر وینس کی بندرگاہ پر داخل ہوتے ان پر موجود تاجر اور عملے کے لیے لازم تھا کہ وہ چالیس دن جہاز ہی میں رکے رہیں۔ مقصد شہری آبادی سے دور رکھنا تھا تاکہ اس دوران جس کو پلیگ کا مرض ہے اس کی علامات ظاہر ہو جائیں اور اس کو صحت مندوں سے الگ کر لیا جائے کہ یہ واحد طریقہ تھا باقی انسانوں کو بچانے کا۔ قرنطینہ انسانی تہذیب جتنی ہی پرانی ہے اس کا تذکرہ صحیفوں میں ہے۔ بنی امیہ کے عبدالملک بن مروان نے کوڑھ کی وبا کے دوران دمشق میں قرنطینہ بنوایا۔ شہر کو کئی دن کے لیے بند کردیا اور کوڑھیوں کو صحت مندوں سے الگ کرکے دمشق قرنطینہ میں منتقل کیا۔ آپ کو قرنطینہ کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ تمام ecosystem آپس میں ایک دوسرے سے مسلسل برسر پیکار ہے۔ انسان کو افزائش نسل کے لیے موافق ماحول درکار ہے اسی طرح وائرس، بیکٹیریا کو زندہ رہنے اور افزائشِ نسل کے لیے حیات (نباتات، حیوان، انسان) کی بطور میزبان ضرورت ہے۔ وائرس بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لیے وہ چاہے تو بیکٹیریا کو میزبان منتخب کرے چاہے انسان کو۔ ننھا سا structure ہے اور اس کا کام ہے انسانی خلیے کی دیوار توڑ کر اپنا جینیاتی مسالہ اندر ڈال کر اس کی کیمیائی مشنری استعمال کرکے مزید وائرس پیدا کرنا المختصر انسانی خلیے کو تباہ کرنا۔ انسانی جسم وائرس سے اس جنگ میں اپنا مدافعتی نظام ( T cells. Antibodies۔ وغیرہ) استعمال کرتا ہے جو وائرس کو detect کرکے مختلف طریقوں سے قابو کرتی ہیں۔ اگر وائرس یہ جنگ جیت جائے تو انسان مر جاتا ہے۔ انسان جیت جائے تو وائرس پر قابو پا لیتا ہے۔ اس سارے عمل میں وائرس اپنی علامات ظاہر کرنے میں وقت لیتا ہے۔ covid-19 کی صورت میں یہ وقت 5 سے لے کر 14 دن تک ہے۔ اس کے لیے کم از کم 14 دن سارے شہر کو اپنے اپنے گھر کو ہی قرنطینہ بنا کر رہنا ضروری ہے۔ 14 دن بعد صحت مند کو بیمار سے الگ کرکے علاج کے ذریعے بہتر کیا جاسکے گا۔ یہ نا ہی قید ہے نا سازش نا ہی چھٹیاں گزارنے کا بہانہ یہی واحد طریقہ ہے انسانی سسٹم میں داخل ہونے والے ان جانے وائرس سے لڑنے کا۔
سندھ حکومت کو لاک ڈاؤن کے دوران یومیہ اجرت پر کام کرنے افراد کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ جبکہ نجی اداروں، فیکٹریوں، ملوں اور کاخانوں میں کام کرنے والے ورکرز کو بھی تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ممتاز غضنفر علی خان کا کہنا ہے کہ حکومت کا وائرس سے جنگ کے لیے گئے اقدامات بہترین ہے مگر بہتر ہے کہ لوگوں کو گھروں رکھنے کے لیے وائی فائی کی سہولت فری کردی جائے، جبکہ صوبے خصوصاً شہر کراچی میں روز مرہ کی اشیاء ضرورت مندوں کے گھروں تک پہنچانے کے لیے نظام وضح کیا جائے جس کے تحت سٹیزن ہیلپ لائن متعارف کرواکر لوگوں کی مدد کی جائے۔ یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ شہر کی متعدد صنعتوں میں ورکرز کو لاک ڈاؤن کے دوران پندرہ دن کے لیے ملوں ہی میں روکنے کی کوشش کی گئی انکار کی صورت میں انہیں پیغام دیا گیا کہ پھر آج کے دن کوآخری دن سمجھو، پندرہ دن کے بعد آکر اپنا حساب لے لینا۔
سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے کس قیمت پر لوگوں کا کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تحفظ کررہی ہے۔ حکومت پہلے ہی اس مد میں دس کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے۔ جبکہ عالمی اداروں سے بھاری فنڈز بھی مانگے جارہے ہیں۔ جبکہ وفاقی حکومت بھی سندھ صوبے کا کورونا وائرس سے بچائو کے انتظامات کے لیے خصوصی فنڈ دینے کا اعلان کرچکی ہے۔ مگر سوال یہ ہیکہ سندھ حکومت یہ رقم کہاں خرچ کرے گی؟ حکومت لاک ڈاؤن کے دوران غریب افراد کی مدد کا بھی ابھی تک کوئی پروگرام نہیں دے سکی جبکہ یومیہ اجرت پر اپنا گزارہ کرنے والے ہزاروں افراد کو دو روز بعد ہی مالی پریشانی کی وجہ سے ان کے گھروں میں فاقے شروع ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے کم از کم ان کی یومیہ خوراک کا انتظام کرے۔ اس مقصد کے لیے علاقائی بلدیاتی نمائندوں (ناظمین اور کونسلرز) کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ کرنی بھی چاہیے۔ وہ منتخب کونسلرز کے غریب متاثرین کے گھر ضروری فنڈز کے ساتھ یومیہ خوراک بھی بھیج سکتی ہے۔ اگر حکومت غریبوں کی مالی مدد یا لاک ڈاؤن تک انہیں خوراک کی فراہمی یقینی نہیں بناسکی تو حکومت کے لیے کورونا سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ کیونکہ جب کھانے کو کچھ نہ ملے تو ویسے بھی لوگوں کو عزت سے مرجانے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ اب یہ بات حکومت کے سوچنے کی ہے کہ وہ لوگوں کو بھوک سے مارنا چاہتی ہے یا کورونا وائرس سے؟؟