افغانستان کی تعمیر نو امریکا کی ذمے داری

544

افغانستان میں صدارتی منصب کے لیے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے مابین تنازع کا نام لے کر امریکا نے افغانستان کی امداد میں کٹوتی کردی ہے ۔ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک دونوں صدارتی امیدوار امریکی مصالحت پر صاد نہیں کرتے اس وقت تک افغانستان کی امداد بحال نہیں کی جاسکتی ۔ اس وقت افغانستان کی جو بھی صورتحال ہے ، اس کی براہ راست ذمہ داری امریکا ہی پر عاید ہوتی ہے ۔ تقریبا بیس برس قبل امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اور اس نے افغانستان میں نیوکلیائی وارہیڈ کے حامل ڈیزی کٹر بموں سے لے کر مدر آف آل بم تک کی آزمائش کرڈالی جس کے نتیجے میں افغانستان کھنڈر بن کر رہ گیا۔ امریکا افغانستان میں اپنی ٹیکنالوجی کے زعم میں حملہ آور ہوا تھا مگرگزشتہ بیس برسوں میں اسے جو سبق ملا وہ یہ تھا کہ اگر کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجائے تو اسے کوئی غلام نہیں بناسکتا ۔ امریکا کو یہ سبق کمبوڈیا، لاؤس اور ویتنام میں بھی مل چکا ہے مگر ہر مرتبہ وہ ایک نئی غلطی دہراتا ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکا نے اپنی غلطی سے کچھ نہیں سیکھا اور اب وہ افغانستان میں اپنے گماشتوں کے ذریعے افغانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے ۔ افغانستان کی اس وقت جو بھی حالت ہے، اس کا ذمہ دار امریکا ہے اس لیے افغانستان کی تعمیر نو کی ذمہ داری بھی امریکا ہی پر عاید ہوتی ہے ۔ نہ صرف تعمیر نو بلکہ امریکا کو افغانوں کو ان کی نسلوں کی تباہی ، ان گنت شہادتوںکا تاوان بھی ادا کرنا چاہیے ۔ ٹرمپ کے لہجے میں جو بھی رعونت و فرعونیت ہو مگر وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا کو ایک مرتبہ پھر شکست ہوچکی ہے ۔ شاید یہی جھنجھلاہٹ ہے جس کی وجہ سے امریکا نے افغانستان کی امداد میں کٹوتی کردی ہے ۔ امریکا کو نہ صرف افغانستان کی تعمیر نو کرنی چاہیے بلکہ دہشت گردی کے نام پر شروع کی جانے والی جعلی جنگ کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہونے والے دیگر ممالک کے نقصان کو بھی پورا کرنا چاہیے ۔ امریکا نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی تھی ، اس سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہے ۔ افغانستان پر جنگ کے لیے امریکا نے پاکستان کو دھونس دباؤ میں لے کر پاکستان کے سارے ہی وسائل استعمال کیے مگر ابھی تک اس نے امریکی سازو سامان لے جانے والے ٹرالروں کے نتیجے میں پاکستان کی سڑکوں کی تباہی تک کے نقصان کو پورا نہیں کیا ۔ابھی تک ناٹو پر اس کے طیاروں کے پاکستانی فضا کے استعمال کا بل واجب الادا ہے ۔ اسی طرح چنگی ناکوں کے بل اور بندرگاہ کو استعمال کرنے کے بل بھی ابھی تک ادا نہیں کیے گئے ہیں ۔ یہ وہی امریکا ہے جس نے پوری ادائیگی ہونے کے باوجود پاکستان کے F16 طیاروں کو اپنے ملک میں زبردستی روکے رکھا اور بعد میں ان کی پارکنگ کا بھاری بل بھی زبردستی وصول کرلیا ۔ اصولی طور پر حکومت پاکستان کو اس مسئلے کو امریکا کے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی سہولت کاری سے قبل ہی اٹھا لینا چاہیے تھا اور اپنے سارے بل مع جرمانے کے وصول کرنا چاہییں تھے۔