دنیاوی مظاہرِ قدرت، جنہوں نے سائنس کو اُلجھا دیا

1422

ہماری دنیا اور اس کائنات میں تو ویسے کروڑوں مظاہرِ قدرت ہیں جن کی وجوہات و تفصیلات اب تک سائنس کی سمجھ میہں نہیں آسکی اور مزید مظاہر ابھی دریافت کیے جانے کے منتظر ہیں۔ ان مظاہر میں چند کے بارے میں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

لاوا میں بجلی کڑکنا (Volcanic lightning):

آتش فشاں پہاڑوں سے لاوا پھٹنے کے واقعات بذاتِ خود شاذو نادر ہی ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات نکلنے والے لاوا میں بجلی کو کڑکتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے اور اس کی وجہ کئی بار تحقیقات کیے جانے کے بعد بھی سائنسدان جان نہیں پائے ہیں۔

 

ناگا فائر بالز (Naga fireballs):

یہ بظاہر دریا کی سطح سے آسمان کی جانب اٹھتی ہوئی روشن گیندیں لگتی ہیں۔ یہ منظر دریا میکونگ، جو کہ چین سے شروع کر ویتنام پر ختم ہوتا ہے، یہ تقریباً پورے سال دیکھا جاسکتا ہے مگر اس مظاہر کی ایک اور بات جس نے ساینسدانوں کو اچھنبے میں ڈالا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ موسمِ خزاں کے آخری دنوں میں جب چاند پورا ہوتا ہے تو اس وقت یہ روشن گیندیں مزید شدت کے ساتھ آسمان کی جانب اُٹھتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

 

گھنٹی بجانے والے پتھر (Ringing rocks):

گھنٹی کی آواز پیدا کرنے والے یہ پتھر امریکہ کی ریاست پنسلوانیا کے ضلع بَکس کائونٹی میں پائے جاتے ہیں۔ ان پتھروں کو جب بھی ہتھوڑی یا دوسرے پتھر کے ساتھ مارا جائے تو یہ گھنٹی کی آواز پیدا کرتے ہیں اور ایسال لگتا ہے جیسے یہ بتھر اندر سے کھوکلے ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔

 

زلزلے سے متعلقہ روشنی (Earthquake lights):

زلزلے کے آنے سے قبل یا دورانِ زلزلہ یا پھر زلزلے کے فوراً بعد یہ روشنیاں کئی سو سالوں سے دیکھی جارہی ہیں۔ یہ روشنیاں عام طور پر چند سیکنڈ تک رہتی ہیں۔ ان روشنیوں کی کم مدت کی وجہ سے ہی سائنسدان اب تک اس کے بارے میں کچھ جان نہیں پائے ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے جب زلزلے کی وجہ سے کچھ مخصوص پتھر ٹوٹتے ہوں تو ان سے آکسیجن کے خلیوں کا خراج ہوتا ہو جس کی وجہ سے نمودار ہوتی ہوں لیکن حتمی طور پر پھر بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

 

 

بجلی کا گولا (Ball lightning):

بجلی کی یہ قسم طوفانوں میں عام کڑکنے والی بجلیوں سے بہت مختلف ہے۔ یہ بجلی کا گولا طوفان کے دوران کبھی کبھی بنتا ہے لیکن عام طوفانی بجلیوں کے برعکس یہ بجلی کا گولا آسمان پر ایک منٹ سے زائد تک رسکتا ہے۔ اس گولے کے اولین عینی شاہد قدیم یونانی ہیں مگر اس مظاہر سے سب سے پہلے سائنسی دنیا کو پہلی بار آگاہ سیزر نکولسن نے 19 ویں صدی میں کیا تاہم اس کے بارے میں تفصیلات سے سائنسدان ابھی بھی لاعلم ہیں۔

 

 

تیرنے والے پتھر (Sailing rocks):

دنیا کے کئی صحرائوں میں پڑے ہوئے پتھر اپنے آپ چل پڑتے ہیں اور رخ بھی بدل لیتے ہیں۔ سائنسدان اس کے بیچھے چھپے عوامل جاننے کو بیتاب ہیں۔ کچھ ماہرین صحرا میں تیز ہوائوں کے چلنے کو اس کا سبب بتاتے ہیں جبکہ کچھ ماہرین صحرائی زمین پر برف کی باریک تہہ کے جمنے کو اس کی وجہ گردانتے ہیں لیکن تاحال سائنسی دنیا اس کو ثابت نہیں کرپائی ہے کہ اور الجھن کا شکار ہے کہ آخر کار یہ پتھر فاصلہ کیسے طے کرتے ہیں اور اپنے آپ پلٹتے بھی ہیں اور راستہ بھی بدل لیتے ہیں؟۔