ادارے بند کر دیں یا لوگوں کو سہولت دیں

665

سندھ میںایک طرف لاک ڈاؤن جاری ہے تو دوسری طرف وفاقی حکومت کے ماتحت ادارے کھلے ہوئے ہیں۔ ان اداروں میں کراچی پورٹ ٹرسٹ ، بینک اور بندرگاہ پر کام کرنے والے دیگر ادارے شامل ہیں ۔ حکومت سندھ چاہتی ہے کہ صوبے میںخصوصی طور پر کرفیو جیسی صورتحال ہو اور کوئی بھی شخص گھر سے باہر نہ نکلے ۔ سندھ حکومت نے پٹرول پمپ ، کریانے کی دکانیں ، سپر اسٹورز ، تنور، سبزی و پھل کی دکانوں و پتھاروں ، دودھ کی دکانوں اور میڈیکل اسٹورز وغیرہ کو لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک ، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، اسپتالوں میں کام کرنے والا عملہ جس میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے علاوہ اسپتال کے گارڈ، سینیٹری ورکرز بھی شامل ہیں ، ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے جن میں صحافیوں کے علاوہ ڈرائیور، کیمرہ مین وغیرہ بھی شامل ہیں کو بھی لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ اسی طرح میڈیسن مارکیٹ اور جوڑیا بازار بھی کھلے ہیں کہ شہر کیا صوبے بھر میں ادویہ اور اجناس کی کوئی قلت نہ ہو۔ سبزی منڈی اور پھل منڈی بھی کھلی ہے ۔مگر شاید سید مراد علی شاہ یہ ہدایات آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز تک پہنچانا بھول گئے ہیں کہ پولیس و رینجرز نے اپنے قانون پر عملدرآمد شروع کردیا ہے ۔ جب مذکورہ بالا ادارے کھلے ہوں گے تو ان میں کام کرنے والے گھروں سے باہر بھی نکلیں گے اور اپنی شفٹ کے خاتمے کے بعد گھروں کو واپس بھی آئیں گے ۔ بینک کھلے ہوں گے تو ان میں کام کرنے والوں کے علاوہ بینک سے لین دین کے لیے بھی لوگ باہر نکلیں گے ۔ کریانے ، دودھ کی دکانوں ، تنوروں اور میڈیکل اسٹورز سے خریداری کے لیے بھی لوگ باہر نکلیں گے ۔ مگر پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے ، وہ صرف آنے جانے والے افراد کو روک کر ان پر تشدد کرنے انہیں سڑک پر مرغا بنانے اور ان سے بھاری رشوت کی وصولی میں مصروف ہیں ۔ اگر کوئی شخص رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں کو سمجھانے کی کوشش کرے تو اسے یہ اہلکار تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ گالیاں بھی دیتے ہیں ۔ سید مراد علی شاہ بتائیں کہ شہری کیا کریں ۔ یا تو وہ سب کچھ بند کردیں اور کرفیو کی طرح وقفہ دیں تاکہ شہری تشدد و گالیوں کی بے عزتی سے بچ سکیں ۔ اگر انہیں اسپتال میں عملہ درکار ہے تو پولیس و رینجرز کو بھی اس سے آگاہ کریں اور پولیس و رینجرز کو یہ بھی بتائیں کہ اسپتال میں صرف ڈاکٹر ہی کام نہیں کرتے ہیں بلکہ وہاں پر نرسیں ، ٹیکنیشین ، آفس اسٹاف ، سینیٹری ورکرز اور گارڈ وغیرہ بھی کام کرتے ہیں ۔ جہاں تک ذرائع ابلاغ کا معاملہ ہے تو ایسا محسوس ہے کہ جیسے رینجرز اور پولیس اہلکاروں کو اخبارات و ٹی وی پر کام کرنے والوں سے اسکور برابر کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے ۔ سید مراد علی شاہ نے ایک طرف پبلک ٹرانسپورٹ بند کردی ہے تو دوسری جانب کسی بھی گاڑی میں دو اور تین افراد سے زیادہ سفر کرنے پر بھی پابندی عاید کردی ہے ۔ مزید ستم یہ کیا ہے کہ ڈبل سواری پر بھی پابندی عاید کردی گئی ہے ۔ اب کوئی یہ بتلائے کہ مذکورہ بالا اداروں میں کام کرنے والے کیسے اپنے دفاتر میں پہنچ پائیں گے ۔ ہر شخص کے پاس نہ تو کار ہے اور نہ ہی کوئی دفتر کسی ایک شخص کے پک اور ڈراپ کے لیے گاڑی بھیج سکتا ہے ۔ اب اگر کوئی واٹر بورڈ کا ملازم اپنے ساتھی سے لفٹ لے کر کام کی جگہ پر پہنچنا چاہے کہ شہر کو پانی کی ترسیل بلا تعطل جاری رہے تو وہ اس لیے نہیں جاسکتا کہ سید مراد علی شاہ اور ان کے انتہائی عقلمند وزیروں نے اس پر پابندی عاید کردی ہے ۔ اگر کوئی اکیلا ہی چلنا شروع کردے تو پولیس اور رینجرز کے اہلکار ان پر ٹوٹ پڑیں گے ۔ فوجی سپاہیوں کی کہانی اس سے بھی سوا ہے کہ انہیں کچھ معلوم ہی نہیں ہے کہ کرنا کیا ہے ۔ پولیس اور رینجرز کے سپاہی انہیں دکھا کر کہتے ہیں کہ صاحب منع کررہے ہیں اور صاحب مزید اکڑ کر کہتے ہیں کہ جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں ، اس پر عمل کیا جائے ۔ بہتر ہوگا کہ سید مراد علی شاہ واضح احکامات جاری کریں اور اس سے بھی زیادہ آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو وضاحت کے ساتھ سمجھائیں کہ وہ اپنے اہلکاروں کو شائستگی کی تلقین کریں اور بتائیں کہ باہر نکلنے پر پابندی نہیں ہے بلکہ غیر ضروری نکلنے پر پابندی ہے ۔ پولیس اور رینجرز کو یہ بھی بتایا جائے کہ جو ادارے کھلے ہیں ، ان کے ملازمین کو آنے اور جانے کی بھی آزادی ہے ۔