کورونا اور پاکستانی عوام محمد وہاج فاروقی

586

ہمارے آفس میں ایک فرد نے کہا کہ میری دعا ہے کہ کورونا وائرس پاکستان آجائے اور اگلے دن ہی ایک کیس پاکستان میں رپورٹ ہوا، ہم نے کہا کہ ایساکیوں تو کہنے لگے کہ جو چیز پاکستان میں آجائے وہ ختم ہوجاتی ہے، پاکستانی عوام خود ایک کورونا ہیں۔

اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ دنیا میں جہاں بھی کورونا گیا بڑی تیزی سے پھیلا ،اس کی بنیادی وجہ لوگوں میں خوف ہے، جس کی وجہ سے اموات ہوگئی ہیں، ظاہری سی بات ہے جب آپ کسی فرد کے آگے صبح شام ایک ہی چیز دکھائی گے یا سنائی گے تو وہ نفسیاتی طور پروہ اپنے اوپر حاوی کرلے گا۔

ہمارا میڈیا ایک ایجنڈے کے تحت ہر گھڑی چیخ چیخ کر بار بار یہ باور کرا رہا ہے کہ آپ کو اگر چھنک آجائے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو کورونا ہوگیا ہو، آپ کو بخار ہوگیا ہے تو ہوسکتا ہے آپ کوکرونا ہوگیا ہے۔

یہ ہی بخار، یہ ہی چھینک پاکستانی عوام کو اس سے پہلے بھی معمول کے مطابق آتی تھیں ، کیونکہ ہمارا شہر میں ماشاء اللہ سے ماحول اتنا اعلی ہے کہ ہر بندہ ہی آگاہ ہے، ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر اور اگر کوئی بندہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتاہے تو بخوبی واقف ہوگا کہ ٹوٹی پھوٹی بسیں اور ان میں بیٹھ کر چند منٹوکا سفر ایک ، ایک گھنٹے کا ہوجاتاہے۔بات کہی سے کہیں اور نکل آئی۔

اب اگرایک عاد چھینک زیادہ آجائے یا بخار کا ٹیمپریچر زیادہ ہوجائے تو فورا ایک ہی خیال آتاہے کہ کورونا ہوگیا ہے اور آس پاس کے افراد بھی فوا دور بھاگنے لگتے ہیں ان تمام حرکتوں کے باوجود لوگ وبا کے ڈر سے مریں گے نہیں تو کیا صحت یاب ہونگے؟

کورونا وائرس مانا ایک خطرناک بیماری ہے ،لیکن ہم بحیثیت مسلم اس بات سے آگاہ ہیں کہ ہر بیماری اللہ ہی دیتا ہے اور اس کے بعد وہی شفا بھی دیتاہے، کرونا وائرس سے بچنے کے لیے ہر انسان کو اپنے مطابق حفاظتی اقدامات کرنے چاہیے، دور حاضر میں ہر فرد اپنے معاملے میں بہت ہی چالاک اور ذہین ثابت ہوتاہے، ہر فرد کو معلوم ہے کہ کب ہاتھ دھونے ہیں ؟کب کیا کرناہے؟۔

حکومت کو جو کام کرنے چاہیے وہ کرنے سے قاصر ہے، سکھر میں ایک قرنطینہ قائم کیا جہاںکرونا متاثرین کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے شہر کو لاک ڈائون کیا گیا، اجتماعی طور پر استغفار کی محفل منعقد کرنے کے بجائے ،مساجد کو بند کرنے کی بات کی گئی ، جبکہ مسجد سے زیادہ پاک جگہ تو قرنطینہ بھی نہیں اور نہ ہی وہ آئسولیشن سینٹر جو ایکسپو میں قائم کیا گیا۔

مسجد ہی وہ دنیا میں واحد جگہ ہے جہاں انسان کا لباس بھی صاف ہوتاہے، جسم بھی صاف ہوتاہے، اور باطن بھی صاف ہوتاہے۔

لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ سے اسلامی رسومات کو پس پشت ہی ڈال کر تمام اقدامات کیے ہیں ، جس کی وجہ سے شاید عارضی فائدہ تو ملاہو، لیکن کچھ وقت کے بعد وہ عوام کے لیے ایک ناسور ہی بن گیا ہے۔

اب بھی وقت ہے اگر حکمرانوں نے اللہ کی زمین پر اللہ کے قوانین قائم نہیں کیے تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہر انسان ہی ایک دوسرے کا دشمن ہوجائے گا۔ گنتی کہ وہ چند ہی افراد ہونگے جو کے دین پر چل کر دونوجہانوں میں سرخرو ہورہے ہونگے۔