مسجد اقصیٰ ،53 سال بعد نمازیوں کیلئے بند

314

مقبوضہ بیت المقدس (انٹرنیشنل ڈیسک) مسلمانوں کے لیے تیسرے مقدس ترین مقام مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ کو نمازیوں کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ مسجد اقصیٰ میں نماز کے لیے مسلمانوں کا داخلہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ مسجد اقصیٰ کا انتظام اردن کی سربراہی میں ایک اسلامی ادارے ’’وقف‘‘ کے پاس ہے۔ اس ادارے نے اتوار کی شب ہی اعلان کر دیا تھا کہ مسجد اقصیٰ کو مجبوراً ہر قسم کے شہریوں اور نمازیوں کے لیے بند کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ وقف نے اپنے ایک بیان میں مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام مسلمان عبادت گزاروں سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ حرم کی بندش کا فیصلہ طبی حوالے سے پائے جانے والے جائز اور قابل فہم خدشات کی بنا پر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی مسلمانوں سے یہ درخواست بھی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی نمازیں اپنے گھروں میں ہی پڑھیں۔ مسجد اقصیٰ کی بندش ایک ایسا انتہائی اقدام ہے، جو عشروں بعد دیکھنے میں آتا ہے۔ اس سے قبل مسجد اقصیٰ کو نمازیوں کے لیے آخری بار 1967ء میں اس وقت بند کیا گیا تھا، جب 53 برس قبل عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین جنگ ہوئی تھی۔ اس سے قبل اسرائیلی حکام کی طرف سے گزشتہ اتوار کے روز مسجد اقصیٰ اور اس سے متصل قبۃ الصخرہ کو بھی غیر معینہ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ اس بندش کے بعد بھی مسلمان مسجد اقصیٰ کے احاطے میں نماز ادا کررہے تھے، مگر اسلامی ادارے نے اب وہ بھی منسوخ کر دی ہے۔ اب وہاں پر صرف ان چند گنے چنے مسلمانوں کو ہی نماز کی اجازت ہو گی،جو حرم کے اندر ہی ہوتے ہیں اور اس مقدس مقام کی دیکھ بھال کے ذمے دار ہیں۔ یہ مسلمان ملازمین آیندہ بھی وہاں موجود رہیں گے اور اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔دوسری جانب قابض صہیونی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ کے باب حطہ سے 2 فلسطینیوں کو حراست میں لیا۔ دونوں فلسطینیوں کو نماز عشا کی ادائیگی کے دوران حراست میں لیا گیا۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں پر بلا جواز پابندیاں عائد کی تھیں۔ اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی پر5 ہزار شیکل جرمانے کی سزا مقرر کی تھی۔ صہیونی حکام نے بیت المقدس میں محکمہ اوقاف کے چیئرمین الشیخ عبدالعظیم سلہب کو بھی مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے الزام میں 5 ہزار شیکل جرمانے کا نوٹس بھیجا تھا۔ خیال رہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ مقام اس وجہ سے بھی انتہائی مقدس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مسجد اور اس کے احاطے سے ایک براق پر سوار ہو کر شب معراج کو آسمان پر گئے تھے۔ اسی کی ایک اہم نشانی دیوارِ براق ہے۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے کتنا اہم اور حساس مقام ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر 2000ء میں اس دور کے اسرائیلی وزیر دفاع ایرل شیرون کے قبۃ الصخرہ کا اچانک دورہ کرنے سے فلسطینیوں کی ایک ایسی مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی تھی، جو طویل عرصے تک جاری رہی۔ اس تحریک کو انتفاضہ الاقصیٰ کہا جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے احاطے کو جانے والے تمام راستوں اور داخلہ گاہوں کو بھی اسرائیل کنٹرول کرتا ہے، جب کہ حرم شریف کا انتظام وقف کے پاس ہے۔ اسی ادارے کی ہدایت پر مسجد اقصیٰ کے ڈائریکٹر عمر الکسوانی نے حرم الشریف کو نمازیوں کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔