تصویر کا دوسرا رُخ

685

ویسے تو سوشل میڈیا نے ہمارے الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اس تک ہر ایک کی رسائی ہے اور کسی کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تاہم جب کتاب کی ورق گردانی سے طبیعت اُکتا جاتی ہے تو تازہ دم ہونے کے لیے بے اختیار انسان اخبارات کی طرف لپکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے تقریباً پونے دو سال مکمل ہوا چاہتے ہیں، مگر اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی بدستور حزبِ اختلاف میں ہے اور مسلم لیگ ن / پیپلز پارٹی حکومت میں ہیں۔ پی ٹی آئی تسلسل کے ساتھ چوروں اور لٹیروں کی داستانیں سنارہی ہے اور اُن کے فرمودات سے ٹیلی ویژن اسکرین اور اخبارات کے صفحات مزیّن ہوتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنے کا فائدہ پی ٹی آئی کو یہ ہے کہ اس میں صرف نان اسٹاپ یعنی تسلسل کے ساتھ بولنا پڑتا ہے، کچھ کرنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی، اس لیے وہ ہر آن تازہ دم دکھائی دیتے ہیں اور دشمن پر حملہ آور ہونے کے لیے ریڈ الرٹ رہتے ہیں، جبکہ یہ دونوں جماعتیں اقتدار کے زمانے میں بھی اپنے دفاع میں مشغول تھیں اور آج حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے بھی جارح ہونے کے بجائے سہمے ہوئے اپنا دفاع کرنے میں مشغول ہیں اور تھکی تھکی نظر آتی ہیں، بلکہ بعض لکھاری تو وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں کہ نظر ہی نہیں آتیں، سو سب کا فرضِ کفایہ ادا کرنے کا بار مولانا فضل الرحمن کے توانا کندھوں پر آپڑا ہے۔
اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل جو تصویر پیش کرتے ہیں، اس کے مطابق ہم نے خارجہ پالیسی میں ہندوستان کو فتح کرلیا ہے اور وہ ہمارے لگائے ہوئے زخموں کو سہلا رہا ہے، چنانچہ ہمارے قومی اخبارات نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ بھارت پر نہایت دلکش سرخیاں جمائیں، روزنامہ دنیا، جنگ، ایکسپریس، ڈان اور دی نیوز کی سرخیاں کچھ اس طرح کی تھیں: ’’ٹرمپ کا پاکستانی کوششوں کا اعتراف پاکستان کی بڑی کامیابی ہے‘‘، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود فرماتے ہیں: ’’کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پاکستان کی کامیابی ہے‘‘۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فرماتے ہیں: ’’پاک امریکا تعلقات میں بڑی پیش رفت دیکھ رہا ہوں، خطے میں کشیدگی کم ہوگی، سرحدوں کا تحفظ ہر ملک کا حق ہے‘‘۔ ’’بھارت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں ‘‘۔ پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: ’’واشنگٹن کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں‘‘۔ ’’پاکستان دہشت گردی کے خلاف ٹھیک جارہا ہے‘‘۔ ’’پاکستان کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں، مثبت انداز میں کام کر رہے ہیں، امریکی صدر کی تقریر بھارتیوں پر بجلی بن کر گری‘‘۔ قومی اخبارات کا یہ انتخاب ہمیں شاہنواز فاروقی کے کالم سے دستیاب ہوا، ان کا شکریہ کہ ہمیں پاکستان کی خارجہ میدان میں بے پناہ کامیابیوں سے آشنا کیا اور ہمارے قومی پریس کا ایک جائزہ پیش کیا، ان سرخیوں کو پڑھ کر پی ٹی آئی والے دھمال نہ ڈالیں تو کیا کریں، آخر اپنی کامیابیوں کا جشن منانے کا تو ہر ایک کو حق ہے، یہ تصویر بیش تر اردو اخبارات کی پیش کردہ ہے تاکہ قوم کو سب اچھا نظر آئے اور اپنے حکمرانوں کی حاصل کردہ کامیابیوں کو دیکھ کر پھولے نہ سمائے۔
دوسری طرف ٹائمز آف انڈیا، دی نیوز اور ڈان سے جو اصل تصویر سامنے آئی، وہ پاکستانی نکتۂ نظر سے بڑی بھیانک اور خوفناک ہے۔ واشنگٹن میں ’’ہائوڈی مودی‘‘ اور بھارت میں ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کے نام پر منعقدہ اجتماعات سے صدر ٹرمپ نے خطابات کیے، نیز ٹرمپ کے بھارتی دورے کے بعد اعلامیہ بھی جاری ہوا، آئیے! دل پر پتھر رکھ کر ذرا تصویر کا دوسرا رُخ بھی ملاحظہ کیجیے:
’’ٹرمپ اور مودی نے عہد کیا کہ باہمی سلامتی پر مبنی تعلقات کو گہرائی تک لے جائیں گے، بطورِ خاص بحریات (Maritime) اور خلائی (Space domain) شعبوں میں آگہی اور اطلاعات میں شراکت کے حوالے سے، نیز فوجی افسران کے تبادلوں اور توسیعی مشقوں کے ذریعے تعلقات کو وسعت دی جائے گی، اسی طرح جدید ترین جنگی سازوسامان اور اسلحے کی تیاری میں تعاون کو فروغ دیا جائے گا، دفاعی پیداوار میں اشتراک کو آگے بڑھایا جائے گا، انڈیا کو ایڈوانس فوجی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی، اس میں ایم ایچ 60R اور اے ایچ 64E اپاچی ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں، چونکہ انڈیا کو اپنی دفاعی اہلیت کو بڑھانا ہے تو ٹرمپ نے عہد کیا کہ بھارت کو دفاعی میدان میں بڑا شراکتی حصے دار بنایا جائے گا، اسے اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی‘‘۔
’’صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی نے عزم کیا کہ انسانی اسمگلنگ، دہشت گردی، تشدد، انتہاپسندی منشّیات کی نقل وحمل اور سائبر کرائم کے کنٹرول کے لیے امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی اور بھارتی وزارتِ داخلہ کے درمیان قریبی رابطہ رکھا جائے گا‘‘۔
’’ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی نے باہمی تجارت اور سرمایہ کاری میں توسیع پر اتفاق کیا اور قرار دیا کہ دونوں ممالک سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجادات میںباہم طویل المیعاد تزویراتی شراکت دار ہیں، انڈین خلائی تحقیقاتی ادارے ’’آئی ایس آر او‘‘ اور امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ’’ناسا‘‘ میں دیرپا ربط اور معلومات کے تبادلے کا نظام قائم کیا جائے گا، 2022ء میں ایک مشترکہ خلائی تحقیقاتی مشن بھیجا جائے گا جو دنیا کا پہلا ’’Dual-frequency Sympthetic Aperture Radar Satellite‘‘ ہوگا‘‘۔
ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ امریکا کو مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈائون، حقوقِ انسانی کی پامالی اور بھارتی شہریت کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے بڑی تشویش ہے، لیکن بھارت امریکا اعلامیہ قرار دیتا ہے: ’’بھارت ایک ایسا ملک ہے جو آزادی، فرد کے حقوق، قانون کی بالادستی اور انسانی وقار کو سینے سے لگائے ہوئے ہے ‘‘، ’’بھارت انسانیت کی امید ہے، بھارت کی کہانی ترقی کی حیرت انگیز داستان ہے‘‘۔ ٹرمپ کہتا ہے: ’’میں بھارت کے ہر شہری سے کہتا ہوں: اپنے شاندار ماضی پر فخر کرو اور روشن مستقبل کے لیے متحد ہوجائو، امریکا اور بھارت امن اور آزادی کے محافظ بن کر ساتھ کھڑے رہیں گے، میں آٹھ ہزار کلومیٹر سے آپ کو یہ پیغام دینے آیا ہوں کہ امریکا بھارت سے محبت کرتا ہے، امریکا بھارت کو عزت دیتا ہے، امریکا بھارتی شہریوں کا ہمیشہ وفادار رہے گا، ہمارے دل میں بھارت کا ایک خاص مقام ہے، مودی! آپ صرف اہلِ گجرات کا فخر نہیں، بلکہ آپ کی قیادت میں بھارت کوئی بھی کارنامہ انجام دے سکتا ہے‘‘۔ ٹرمپ نے کہا: ’’بھارت خطے کو باہم مربوط کرنے کے لیے کام کرے، بھارت کو مستقبل میں خطے کی تشکیلِ نو کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا ہے، بھارت کو خطے کے مسائل کے حل اور قیامِ امن کی ذمے داریاں سنبھالنا ہوں گی‘‘۔ ’’پاکستان کو یقین دلانا ہوگا کہ اس کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی، مومبائی اور پٹھان کوٹ ایسے حملوں کا اعادہ نہیں ہوگا، اسے داعش، القاعدہ، جیش محمد، لشکرِ طیبہ، حزب المجاہدین، حقانی نیٹ ورک اور ڈی کمپنی کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہوں گے‘‘۔
شاید سطورِ بالا پڑھ کر قارئین کو اندازہ ہوکہ امریکا کی نظر میں ہم ایک ’’برائے خدمت دستیاب یعنی Taken for granted قوم ہیں، ہمیں وقتاً فوقتاً ذمے داری تفویض کی جائے گی اور ہم اُس سے عہدہ برآہونے کے پابند ہوں گے، شاید اُس کے لیے ہمیں کوئی وقتی رعایت مل جائے یا ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی طرح کوئی اعانت مل جائے، لیکن ہم کسی بھی صورت میں امریکا کے قابلِ اعتماد طویل المیعاد شراکت دار کی حیثیت نہیں پاسکیں گے، یہی نوشتۂ دیوار ہے۔ لیکن ہماری وزارتِ خارجہ وقتاً فوقتاً جو تصویر ہمارے سامنے پیش کرتی ہے، وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارا انگریزی پریس بین الاقوامی معاملات کی بعض حقیقت پر مبنی خبریں شاید اس لیے شائع کردیتا ہے کہ ہمارے مغربی آقائوں کو تسلی ہوکہ اُن کا پیغام لفظ بلفظ اور پوری معنویت کے ساتھ پاکستان میں پہنچ رہا ہے۔ اردو اخبارات کی ذمے داری ہے کہ اپنے لوگوں کو تاریکی میں رکھیں اور ظلمتِ شب کے گھُپ اندھیروں میں قوم کو تھپکی دے کر سلاتے رہیں اوریہ باور کرائیں کہ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے، حال بھی ہمارا ہے اور مستقبل بھی ہمارا ہے، کچھ وقت کی دیر ہے کہ انڈیا بالآخرشکست وریخت سے دوچار ہوکر نیست ونابود ہوجائے گا اور پھر تاریخ کے مطلع پر نیّرِ تاباں کی طرح ہم ہی روشن رہیں گے۔
جہاں تک امریکا طالبان معاہدے کا تعلق ہے، یہ ایک حد تک اطمینان کی علامت ہے، لیکن ہمارا پہلے کی طرح طالبان کے ساتھ سو فی صد اشتراک اور باہمی اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک دوسرے کی مجبوری ہیں، سو مجبوری کے رشتے اور پسندو ترجیحات کے رشتے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں شاید ٹرمپ کو نومبر 2020ء کے الیکشن میں کچھ فائدہ حاصل ہوجائے، لیکن افغانستان میں حقیقی اور دیرپا امن کی امید قائم کرنا اور اس خواب کی تعبیر پانا کافی مشکل ہوگا، کیونکہ: ’’ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں‘‘۔ بلاشبہ طالبان کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ امریکا کابل انتظامیہ کو الگ تھلگ رکھ کر بلکہ مکمل طور پر نظر انداز کر کے انہیں اصل فریق ماننے پر مجبور ہوگیا۔ لیکن تاثر یہ ہے کہ امریکا طالبان کو کسی ممکنہ تناسب کے ساتھ شرکتِ اقتدار کا موقع تو دے سکتا ہے، لیکن ان کا کُلّی اقتدار اُسے قبول نہیں ہے اور اس موقف میں ایران، ازبکستان، تاجکستان اور انڈیا بھی اُس کے ہمنوا ہیں۔ اگر امریکا 14ماہ میں واقعی افغانستان سے بوریا بستر لپیٹ لیتا ہے تو کُلّی اقتدار کے لیے طالبان کو ایک بار پھر خونیں جنگ سے گزرنا پڑے گا، جبکہ روس اور چین بھی افغانستان کے معاملات میں دلچسپی لے رہے ہیں، کیونکہ سی پیک کے نتیجہ خیز بننے کے لیے افغانستان کا پرامن ہونا ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ طالبان کا شریکِ اقتدار ہونا اُن کی پوری تاریخ اور فلسفے کی نفی کے مترادف ہے، اس صورت میں وہ اپنی Myth یعنی افسانوی کردار کو اقتدار کی چوکھٹ پر قربان کردیں گے اور ایسے اقتدار میں نہ انہیں عزت ملے گی اور نہ اُن کی بے پناہ قربانیوں اور طویل جدّوجہد کا کوئی ثمرہ ملے گا، سو وہ بھی مرحلۂ امتحان میں ہیں اور طویل عرصے تک رہیں گے۔ الغرض امریکا بھارت کو اس خطے یعنی جنوبی ایشیا کے قائد کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، وہ اسے علاقائی پولیس مین کا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، اعلامیے میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے: ’’امریکا بھارت کو بحر ہند ہی نہیں، بلکہ بحر الکاہل (Pacific Ocean) میں بھی اپنے تزویری شراکت دار کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، یعنی چین کے گرد حصار قائم کرنے کے لیے وہ امریکا کا ناگزیر حصے دار رہے گا، چین کو عالمی قیادت سے روکنا شمالی امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور بھارت کا مشترکہ ایجنڈا ہے، غالب نے کہا ہے:
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا