’’عورت و مرد کا دائرہ کار‘‘

888

محمد یوسف منصوری
پوری دنیا میں عورت ڈے کا پرچار ہے، ہر سرکاری ذمے دار بیان دے رہا ہے۔ یہ دن امریکا میں خواتین پر سرکاری تشدد کے خلاف اصلاً منایا جاتا ہے کہ کام کرنے والی خواتین نے اپنے حقوق کے لیے جلوس نکالا تو امریکی انتظامیہ نے کیوں لاٹھی چارج کیا۔ مگر اب اس قسم کے حقوق پر گفتگو کرنے کے بجائے بے حیائی اور جنسی آزادی پر سارا زور دیا جارہا ہے۔ مغربی قوتیں اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے مسلمانوں کے خاندانی نظام پر بھرپور حملہ آور ہیں۔ اس کے لیے میڈیا پرنٹ اور الیکٹرونک کو خوب استعمال کیا جارہا ہے۔ وہ یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مرد و عورت کے مساوی حقوق ہیں اور عورتوں کو تو سب مردوں والے کرنے چاہئیں مگر وہ مردوں کو یہ نہیں کہتے کہ تم بھی عورتوں والے سارے کام کرو۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک صنف تو دوسری صنف کے سارے کام کرے مگر دوسری صنف یعنی مرد وہ سارے کام نہ کریں جو عورتیں کرتی ہیں۔ جیسے بچے جننا، اپنی چھاتی سے بچے کو دودھ پلانا وغیرہ۔
بچہ جننا اس عورت سے پوچھا جائے جس کی شادی کو کافی عرصہ ہوگیا ہو اور اس کا آنگن سُونا ہو۔ وہ ہزاروں منتیں کرتی ہے اور ہر قسم کے ڈاکٹر اور حکیم سے علاج کرواتی ہے کہ اولاد جیسی نعمت اس کو حاصل ہوجائے اور جب اس نعمت کو حاصل کرلیتی ہے تو نہ صرف وہ بلکہ پورا خاندان دھوم دھام سے خوشی کا اظہار کرتا ہے اور وہ عورت جس کو پتا نہیں کیا کیا کہا جاتا تھا اب اس کی خاطر مدارت کی جارہی ہے اور وہ اسی خوشی میں وہ ساری تکلیف جو جنتے وقت اس کو ہوئی تھی بھول بھال جاتی ہے اور خود کو خوش قسمت سمجھنے لگتی ہے۔ نہ صرف دلی مسرت ہوتی ہے بلکہ نومولود کو ہر قسم کا راحت پہنچا کر مطمئن رہتی ہے۔ کیا مرد اس خوشی کو زندگی میں کبھی حاصل کرسکتا ہے؟۔
اسی طرح دوسرا وظیفہ اپنی چھاتی سے دودھ پلا کر جو ذہنی لطف اس کو حاصل ہوتا ہے مرد اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات وہ سارے تکلفات کو پسِ پشت رکھتے ہوئے وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے لگ جاتی ہے۔ مغرب کی مادر پدر آزاد عورت ان مسرتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اللہ نے مرد اور عورت دونوں میں الگ الگ صلاحیتیں اور قابلتیں رکھی ہیں۔ جب ان سے انحراف کیا جاتا ہے تو پھر مصنوعی طور پر مسرت حاصل کرنے کے لیے کلبوں میں ڈانس کیے جاتے ہیں، پُرتکلف کھانوں پر ہزاروں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور ساری کاوشوں کا نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہتا ہے۔خالق کائنات ارض و سماوات نے دو الگ الگ صنف تخلیق کی ہیں، دونوں کو انبیاؑ کے ذریعے ان کے کاموں کی تفصیلات بتادی ہیں جس سے وہ دنیا میں رہ کر بہترین زندگی گزار سکتی ہیں۔
میری بیگم گل بانو داتی یہ واقعہ اکثر سنا کر مجھ پر رعب ڈالتی رہتی تھی کہ ایک کسان ہمیشہ بیوی کو طعنے دیا کرتا تھا کہ تم کیا کام کرتی ہو دیکھو میں صبح سویرے اُٹھ کر ہَل چلاتا ہوں اور سخت محنت کرکے کھیتی کی رکھوالی کرتا ہوں اور اس سے فصل حاصل ہوتی ہے اس سے سال بھر گزر بسر کرتے ہیں۔ تم دوچار روٹیاں پکالیتی ہو اور آرام سے بچوں کے ساتھ رہ کر مزے کرتی ہو۔ ایک دن دونوں میں یہ معاہدہ طے پایا کہ عورت کھیتی جا کر کام کرے گی اور مرد گھر کے سارے کام سرانجام دے گا۔ عورت کھیت میں چلی گئی اور مرد جیسا تو نہیں مگر کام کرتی رہی۔ یہاں مرد کا بچوں نے ناطقہ بند کردیا اور اس کو روٹی، سالن بنا کر کھیت پہنچانا تھا۔ وہ اتنا بدحواس ہوا کہ صحیح طور پر اس کو موزوں لباس پہننے کی فرصت نہیں ملی اور وہ اسی لباس میں جلدی جلدی کھیت پہنچا تو اس کی بیوی اس کو ایسے لباس میں دیکھ کر ہنسنے لگی۔ تو اس نے کہا کہ بچوں نے اتنا تنگ کیا کہ بڑی مشکل سے روٹی سالن پکا کر کھانا کھیت میں دینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ تب عورت نے جواب دیا ان بچوں کی موجودگی میں ہمیشہ وقت پر مناسب لباس میں تم کو کھانا پہنچاتی رہی ہوں۔ تم ایک دن میں اتنے پریشان ہوگئے کہ مناسب لباس پہننا بھی یاد نہیں رہا۔
مندرجہ بالا قصے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ اگر ہر صنف اپنے اپنے کام کو سرانجام دے تو اس کی فطرت کے تقاضے بھی پورے ہوں گے اور اس کام کو بہترین طریقے سے سرانجام دے سکیں۔
مغرب نے ڈے کیئر کا تجربہ کیا مگر اس سے خاطر خواہ نتائج نہیں مل سکے۔ ہٹلر نے جو انسانی سروں کے مینار بنائے تھے اور انسانوں کو گیس چیمبر میں جلادیا تھا، وہ بچے ماں کی گود میں پلے ہوئے نہیں تھے بلکہ سرکاری اداروں میں ان کی پرورش کی گئی تھی۔ اسلام نے ماں کی گود سے عبداللہ زبیرؓ، امام غزالیؒ، امام شافعی اور ہزاروں ایسے افراد دیے جنہوں نے تاریخ انسانی پر انمٹ نشانات چھوڑے ہیں۔ ہمیں مغرب کی سازش کا شکار نہیں ہونا بلکہ نبیؐ کی غلامی اختیار کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض کو بحسن و خوبی سرانجام دینا چاہیے۔