او ہمنوا

315

غزالہ اسلم
(گزشتہ سے پیوستہ)
صحن میں چار دیواری کھڑی کر کے ایک دروازہ باہر کی جانب کھول کر دکان شروع کر دی۔ فجر کی نماز پڑھ کر اقبال احمد دکان کھولتے اور سورۃ یٰسین کی تلاوت سے کام کی ابتدا کرتے۔ ظہر کی اذان ہوتے ہی دکان بند کر کے نماز پڑھنے مسجد جاتے گھر آ کے کھانا کھاتے ایک گھنٹہ آرام کرتے پھر دکان کھول لیتے۔ شام کو شایان بھی ان کی مدد کرتا چھ ماہ میں دکان اچھی چل نکلی۔ سعیدہ بیگم کے مشورے پر شام کو آلو کے چپس بھی بنا کے بیچنے لگے۔ امتحان کے بعد بسمہ فارغ تھی آلو چھیلنے اور کاٹنے میں سعیدہ بیگم کی مدد کرتی۔ سلائی بھی سیکھ رہی تھی چھٹیوں میں اور کھانا پکانا بھی سعیدہ بیگم نے سکھا دیا تھا جہاں جوان بیٹی ہو وہاں رشتے تو آتے ہی ہیں بسمہ کا بھی ایک رشتہ آ گیا۔ لڑکا کورئیر سروس میں کام کرتا تھا مناسب تنخواہ تھی گھر اپنا تھا ایک بہن شادی شدہ تھی اور دوسری میٹرک میں تھی، والد اور والدہ تھے۔ اقبال احمد کو یہ رشتہ بہت مناسب معلوم ہوا مگر بسمہ نے رو رو کر آنکھیں سجا لیں مجھے ڈاکٹر بننا ہے آپ لوگ کیوں میری شادی کی جلدی کر رہے ہیں، میں ڈاکٹر بن کے اپنے ابو کا علاج کروں گی، ہم نیا گھر لیں گے کنزیٰ اور شایان بھی اچھی تعلیم حاصل کریں گے بس آپ ان لوگوں کو منع کر دیں مجھے نہیں کرنی شادی بسمہ نے دو ٹوک جواب دیا۔ کیسی باتیں کر رہی ہو بسمہ اتنا اچھا رشتہ ہے اور ضروری تھوڑی ہے تمہارا میڈیکل میں داخلہ ہو جائے، اگر ہو بھی جائے تو ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں جو تمہاری فیس بھر سکیں سعیدہ بیگم نے غصے سے کہا امی رزلٹ آنے والا ہے میرا اے ون گریڈ آ گیا تو میں انٹری ٹیسٹ ضرور دوں گی مجھے کوشش کرنے دیں پلیز امی میرا بچپن کا خواب ہے بسمہ رونے لگی اچھا میں ان لوگوں سے سوچنے کے لیے وقت لے لیتی ہوں۔
بسمہ کا رزلٹ آ گیا اے ون گریڈ سے پاس ہو گئی اور جوش و خروش سے انٹری ٹیسٹ کی تیاری شروع کر دی ٹیسٹ بہت اچھا ہوا مگر رزلٹ انائونس ہوا تو بسمہ پانچ نمبروں سے میڈیکل میں داخلے سے رہ گئی کئی دن بسمہ روتی رہی نہ کھاتی نہ پیتی تھی امی ابو سمجھاتے کہ اللہ کی کوئی بہتری ہو گی مگر اس کے دل کو قرار نہ آتا ایک ہفتے بعد غم ذرا ہلکا ہوا تو میں نے تھوڑا سا کھانا کھایا اور گھر کے کاموں میں حصہ لیا۔
آج پھر عمار کی امی کا فون آیا تھا ان کو کیا جواب دوں اقبال صاحب؟ سعیدہ بیگم نے پوچھا ان لوگوں کو ہاں کر دو اتوار کو عمار کے والدین کو شام کی چائے پہ بلالو تا کہ آگے کے معاملات طے کر لیں اقبال احمد نے جواب دیا اگلے ہفتے گھر ہی گھر میں بات پکی ہو گئی اور دو مہینے بعد شادی ہونا قرار پائی بسمہ کو نہ خوشی تھی نہ غم بس نارمل انداز سے تیاری کر رہی تھی آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب بسمہ رخصت ہو کر عمار کے گھر پہنچ گئی عمار بہت ہنس مکھ اور محبت کرنے والا نوجوان تھا مگر بسمہ سنجیدہ ہی رہتی۔ آخر کار عمار نے ایک دن بسمہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ’’اگر تم کسی اور کو پسند کرتی تھیں تو مجھ سے شادی کیوں کی۔‘‘ عمار نے سختی سے اس کا ہاتھ پکڑ کے پوچھا۔ ’’جی ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘ بسمہ حیرانی سے بولی۔
(جاری ہے)
’’تو پھر تم اتنی سنجیدہ، رونی شکل بنا کر رکھتی ہو، میری کسی بات سے خوش نہیں ہوتیں، کیا چاہتی ہو تم؟‘‘ عمار نے کہا۔ ’’نہیں نہیں ایسی بات نہیں آپ بہت اچھے ہیں، میرا بہت خیال رکھتے ہیں سب گھر والے بھی اچھے ہیں، میرا بہت خیال رکھتے ہیں، مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔‘‘ بسمہ نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔ ’’پھر اتنی اداس کیوں رہتی ہو تم؟‘‘
’’اصل میں ڈاکٹر بننے کا خواب میں بچپن سے دیکھتی آرہی تھی وہ ٹوٹ گیا اس وجہ سے مجھے اب کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔‘‘ بسمہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’اچھا یہ بات ہے، روئو تو نہیں کچھ سوچتے ہیں اس بارے میں۔ چلو پہلے منہ دھو کر آئو، باہر چلتے ہیں سمندر کے کنارے، ٹھنڈی ہوا میں اچھے اچھے آئیڈیے آئیں گے۔‘‘ عمار نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ دونوں دیر تک سمندر کنارے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ٹہلتے رہے، ہنستے مسکراتے مختلف منصوبے بناتے رہے۔ ’’تمہاری آواز کتنی خوبصورت ہے کوئی گیت سنائو۔‘‘ عمار نے فرمائش کی۔
’’جب کوئی بات بگڑ جائے
جب کوئی مشکل پڑ جائے
تم دینا ساتھ میرا، او ہم نوا، او ہم نوا
نہ کوئی تھا نہ کوئی ہے
زندگی میں تمہارے سوا
تم دینا ساتھ میرا، او ہم نوا!…
ہو چاندنی جب تک رات
دیتا ہے ہر کوئی ساتھ
تم مگر اندھیروں میں بھی
نہ چھوڑنا میرا ہاتھ
جب کوئی بات بگڑ جائے، جب کوئی مشکل پڑ جائے
تم دینا ساتھ میرا۔ او ہم نوا… او ہم نوا…
’’واہ بہت خوب مزہ آگیا۔‘‘ عمار نے بے ساختہ کہا۔ پھر ریسٹورنٹ میں کھانا کھا کر دونوں گھر آگئے۔ شادی کے ایک ماہ بعد یہ پہلا دن تھا جب بسمہ دل سے خوش تھی۔ عمار نے اپنے دوست کے توسط سے میڈیکل کالج میں سیلف فنانس (Self-Finance) پر سیٹ کے بارے میں معلومات کروائی۔ ’’17 لاکھ روپے‘‘ اتنی بڑی رقم کا سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ والدین سے گفتگو کی۔ ’’ابو ہمارا ایک پلاٹ ہے نہ سرجانی میں 120 گز کا وہ کتنے کا ہوتا اس وقت؟ اگر اُسے بیچ دیں تو بسمہ کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہو جائے گا۔ ہم دونوں مل کر یہ پیسے آپ کو واپس کر دیں گے۔‘‘ عمار نے تجویز پیش کی۔
’’مگر بیٹا وہ تو میں نے فریحہ کی شادی کے وقت کے لیے سنبھال کر رکھا ہے۔‘‘ ابو نے کہا۔
’’ہاں بیٹا تمہارے ابو ٹھیک کہہ رہے ہیں، 4 سال بعد یہ ریٹائر ہو جائیں گے تو فریحہ کی شادی اور کوئی چھوٹا موٹا بزنس اسٹارٹ کریں گے۔‘‘ امی نے تائید کی۔
’’امی آپ فکر نہ کریں میں ابھی سے ہر مہینے فریحہ کی شادی کے لیے کچھ پیسے جمع کرنا شروع کر دیتا ہوں اور پانچ سال میں بسمہ ڈاکٹر بن جائے گی تو ہم دونوں مل کر سارا قرض اُتار دیں گے۔‘‘ عمار نے یقین دہانی کروائی۔
’’امی ابو کی رضا مندی پا کر عمار نے اسٹیٹ ایجنسی سے رابطہ کیا۔ پلاٹ توقع سے زیادہ اچھی قیمت میں بک گیا اور بسمہ کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوگیا۔ بسمہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ پھر تو بسمہ نے جی جان سے پڑھائی شروع کردی نہ صرف عمار نے بلکہ فریحہ، امی اور ابو سب نے اس کا بہت ساتھ دیا۔ گھر کے بہت سے کام امی خود کرتیں، جھاڑو برتن کے لیے عمار نے ماسی رکھ دی۔ چھٹی والے دن سارے کام بسمہ خود کرتی اچھا سا کھانا بناتی، اپنے اور عمار کے کپڑے دھو کر استری کرتی، اپنی امی اور ابو سے ملنے جاتی۔ پورے ہفتے کا گوشت سبزی عمار کے ساتھ لے کر آتی۔ کبھی کبھی بسمہ گھبرانے لگتی تو عمار تسلی دیتا۔ ’’میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔‘‘ بسمہ کا ڈھیروں خون بڑھ جاتا۔ اسی طرح پانچ سال گزر گئے آج بسمہ کا رزلٹ تھا وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی تھی۔ عمار نے گھر پر دعوت رکھی تھی جس میں بسمہ کے گھر والوں کو اور اپنی بڑی بہن کو مدعو کیا تھا۔ بسمہ صبح سے امی کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ بریانی، کوفتے، فروٹ ٹرائفل، رائتہ، سلاد سب تیار کرکے بسمہ نہا کر عمار کا دیا ہوا نیا سوٹ پہن کر مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے تیار تھی۔
بسمہ کے والدین کے حالات بھی بہت اچھے ہو گئے تھے۔ اقبال احمد اور سعیدہ بہت سے تحائف کے ساتھ آگئے تھے۔ اقبال احمد نے عمار کو گلے لگا کر بہت گرم جوشی سے کہا۔ ’’بیٹا میں تمہارا بہت احسان مند ہوں، تم نے میری بچی کا بچپن کا خواب پورا کر دیا، یہ آج جو کچھ ہے تمہاری وجہ سے ہے۔‘‘
’’انکل کیسی بات کر رہے ہیں بسمہ اپنی ذہانت اور محنت کی وجہ سے ڈاکٹر بنی ہے، ہاں مجھ سے اور میرے گھر والوں سے جو ہو سکا وہ ہم نے کیا کیونکہ ہم سب بسمہ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ عمار نے جواب دیا۔
بھائی صاحب اور بھابھی آپ کا بھی بہت شکریہ آپ کے حسنِ سلوک کی وجہ سے آج بسمہ کو یہ کامیابی ملی ہے۔‘‘ اقبال صاحب نے کہا۔ ’’اقبال بھائی اگر بسمہ آپ کی بیٹی ہے تو ہماری اکلوتی بہو ہے اور ہمیں اس کی خوشی عزیز ہے، اب یہ آپ کا اور ہم سب کا مفت علاج کرے گی کیوں بسمہ؟‘‘ عمار کے ابو نے مذاق کیا۔
’’کیوں نہیں ابو میں آپ لوگوں سے فیس تھوڑی لوں گی۔‘‘ بسمہ بولی۔ ’’اچھا بیٹا آگے کیا ارادہ ہے؟‘‘ اقبال احمد نے پوچھا۔ ’’ابو میری دوست کے ابو کا پرائیوٹ اسپتال ہے اس میں مجھے جاب کی آفر کی ہے۔ اُن کا صبح کی شفت میں اور شام کو گھر کے قریب کلینک کھولنے کا ارادہ ہے۔ بسمہ نے بتایا۔ ’’اللہ تمہیں کامیابی دے ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ امی ابو نے خلوص سے دعا دی۔ کھانا کھا کے مہمان رخصت ہوگئے۔ بسمہ نے سب سمیٹ کر برتن دھوئے اور کمرے میں آگئی۔ عمار موبائل میں مصروف تھا۔ ’’آپ ابھی تک سوئے نہیں۔‘‘ بسمہ حیرت سے بولی۔
’’جانِ من تمہارے انتظار میں جاگ رہا ہوں اور سنائو خوش تو ہو ناں؟‘‘ تمار نے جذبات سے بھرپور لہجے میں کہا۔
’’عمار آج میں اتنی خوش ہوں کہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی، میں اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت بیوی سمجھتی ہوں جسے آپ جیسا تعاون کرنے والا شوہر ملا، میں ساری زندگی آپ کی احسان مند رہوں گی۔‘‘ بسمہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’تم پھر رونے لگیں۔‘‘ عمار نے غصے سے کہا۔
’’یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔‘‘ بسمہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ ’’چلو آج میں تمہیں گیت سناتا ہوں۔‘‘ عمار بولا۔
’’جب کوئی بات بگڑ جائے، جب کوئی مشکل پڑ جائے، تم دینا ساتھ میرا… او ہم نوا… او ہم نوا…
تھوڑی دیر میں دونوں مل کے گا رہے تھے اور مشترکہ قہقہے کمرے میں گونج رہے تھے۔