پڑھے لکھے نوجوان تعمیراتی شعبے میں شمولیت اختیار کرکے اور تھوڑے سے تجربے کے بعد ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، انور سانگی

675

سوال:یہ بتائیں کہ تعمیراتی صنعت ملک کی معیشت میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟
جواب: تعمیرات کا مسئلہ کسی فرد کا نہیں اجتماعی طور پر پورے ملک کا ہے، کیوں کہ لاکھوں ہنر مند اور غیر ہنر مند محنت کشوں کا تعلق تعمیرات کے ساتھ ہی جڑا ہے اور 20 سے زائد صنعتوں کا بھی تعمیراتی صنعت سے گہرا تعلق ہے، ہمارے ملک کی بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے، تعمیراتی صنعت سے وابستگی ایک جانب تو ان کو روزگار کے وسائل مہیا کرسکتی ہے دوسرے یہ پڑھے لکھے نوجوان اس میں شمولیت اختیار کرکے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
سوال: اگر دوسرے شعبے سے تعمیراتی انڈسٹری کا موازنہ کیا جائے تو پھر آپ کا شعبہ کہاں کھڑا ہے؟
جواب: تعمیراتی صنعت پاکستان کے تمام شعبوں سے زیادہ عروج پر ہو تو روزگار فراہم کرتی ہے، تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے عملی طور پر جب تجربہ حاصل کرتے ہیں اور تھوڑی بہت ٹریننگ بھی لے لیتے ہیں تو بیرون ملک جاکر بھی کام کرسکتے ہیں، غرضیکہ تعمیراتی انڈسٹری کے ایسے مثبت پہلو بھی ہیں جو لوگوں پر اب تک افشا نہیں ہوئے، تعمیراتی صنعت میں عملی تجربے لیے ہوئے افراد نے اگر ڈپلومہ بھی لے رکھا ہو تو اس طرح کے ہنرمند مشرق وسطیٰ، مشرق بعید میں محنت کش اور ہنرمند کام کرتے ہیں اور ملک کو ترسیلات زر بھیجتے ہیں جس ملکی صنعت اور حاکمیت کو تقویت ملتی ہے، آپ اندازہ لگائیں کہ تقریباً بیس ارب ڈالر ہر سال ترسیلاب زر ملک میں آتی ہیں، یہ 25 فیصد بڑھ جائیں اور ملک میں لوگ ٹھیک سے ٹیکس دیں تو ہمیں قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے، پاکستان میں جو تعمیرات میں تجربہ حاصل کرکے بیرون ملک جاکر ملازمتیں کرتے ہیں وہ اپنے ملک کو بھی بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں، اسٹیٹ بینک کے مطابق 2010-11ء میں تعمیرات سے جڑے محنت کشوں نے اربوں ڈالر پاکستان میں بھیجے ہیں جن پر کوئی سود ادا نہیں کرنا پڑتا جبکہ آئی ایم ایف سے قرضوں کی شرائط اور سود کے بارے میں سب کو علم ہے، اس لیے تعمیراتی ضرورت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جسے توڑ دیا جائے تو صنعت اور معیشت دونوں اپاہج ہوجائیں گے۔
سوال: ہر چیز کی معاشی اور سماجی افادیت ہوتی ہے، تعمیرات کو اس تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: پاکستان میں ایک بڑی آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، تعمیرات کا سماجی پہلو بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، اس سے روزگار ان لوگو کو بھی ملتا ہے، جو ہنرمند نہیں، اس سے غربت میں کمی آتی ہے، پاکستان میں تعلیم کی شدید ضرورت ہے، ووکیشنل ٹریننگ کتنی ضروری ہے سب جانتے ہیں، سب ہی کو علم ہے، چین کا ہر آدمی ووکیشنل ٹریننگ لیتا ہے، صحت کے لیے اسپتال تعمیر کریں یا ٹرانسپورٹیشن کے لیے سڑکوں کی ضرورت ہو، وہ تعمیرات کا شعبہ ہی بنائے گا، فلائی اوور، ایئر پورٹ، ریلوے سسٹم، انڈسٹریل بلڈنگ، بجلی گھر، ڈیمز، ٹیوب ویل وغیرہ آپ دیکھیں تو چیز تعمیرات کے بغیر ادھوری ہے بلکہ ناممکن ہے، دفاتر، بینکس، شاپنگ مالز ہر چیز میں تعمیرات اول نمبر پر ہے، اس لیے سماجی اور معاشی افادیت دونوں ترقی کے لیے بہت ضروری ہے، اس لیے صنعتی انڈسٹری پر زور دینا چاہیے، ویلیو ایڈیشن بھی تعمیراتی انڈسٹری کے ذریعے ہوتی ہے، اس لیے اس کا حصہ بجٹ میں (SPDP) میں زیادہ ہونا چاہیے، سرکاری سطح پر تعمیرات کا شعبہ بڑے پیمانے پر زیادہ ہونا چاہیے لیکن اب تک سرکاری سطح پر تعمیرات کا شعبہ بڑے پیمانے پر سامنے نہیں آیا۔ این ایچ اے لیکن اس سے بھی زیادہ بڑا ادارہ چاہیے جو چین کی طرح پہاڑوں کے درمیان اور سندروں کے اندر بھی کام کرسکے، اس سے نجی شعبے کو بھی فائدہ ہوگا ملک ترقی کرے گا۔
سوال: کراچی میں لگژری رہائش اور عام رہائش کی طلب زیادہ ہے کراچی میں بعض حلقے چاہتے ہیں کہ ان کے لیے رہائش پرسکون اور اس میں تمام سہولتیں موجود ہوں جو ایک اچھی رہائش کے لیے ضروری ہیں؟
جواب: جہاں تک لگژری گھروں کی بات ہے، گھر یا رہائش کو ایسا ہی لگنا چاہیے جسے کوئی فائیو اسٹار ہوٹل ہو، جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں کہ لگژری رہائش ہو وہ صرف سیاحت کے مقام پر ایسے گھر پسند کرتے ہیں جہاں وہ عارضی طور پر ٹھہرتے ہیں، انھیں ایسی ہی رہائش فائیو اسٹار ہوٹلوں والی چاہیے، لیکن جہاں وہ مستقل رہائش رکھتے ہیں اسے گھر جیسا ہی ہونا چاہیے جو فائیو اسٹار ہوٹل ہرگز نہ لگے، لوگ چاہتے ہیں گھر سادہ ہو لگژری وہ ایسے مقام پر ہو جہاں ریسٹورن نزدیک ہوں، رات کو باہر جائیں تو تفریحات بھی نزدیک ہوں، کراچی میں بلند وبالا رہائش کی طلب زیادہ ہے، کراچی میں بننے والے پروجیکٹس عوام میں مقبولیت کے بام افق کو چھو کر وقت سے پہلے فروخت ہورہے ہیں، جدید رہائش میں رہائشی ماحول کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے، جہاں سیفتی بھی ہو، صاف پانی اور گیس کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، اس لیے تعمیرات میں اب افراد یا انسانوں کی بہتر زندگیوں کا خیال رکھا جانے لگا ہے، چنانچہ دنیا کی طرح کراچی اور پاکستان بھر میں جدید رہائش کے سنگ میل طے ہوئے ہین اور رہائشی جوق در جوق بلند عمارتوں میں رہائش پزیر ہورہے ہیں۔