لاک ڈائون پر بھی سیاست

472

حکومت سندھ نے 22 اور 23 مارچ کی رات سے مکمل لاک ڈائون کا اعلان کیا ہے۔ جو کرفیو طرز کا ہو گا۔اس حوالے سے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے موقف میں تضاد یا اختلاف پایا جاتا ہے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ مکمل لاک ڈائون کیا جائے لیکن وفاقی حکومت اس لفظ کے استعمال سے گریزاں ہے۔ غرض لاک ڈائون پر زبردست سیاست ہو رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے بھی بہت سے ایسے اقدامات کیے ہیں جو لاک ڈائون کے مترادف ہیں لیکن وہ اس لفظ کے استعمال پر راضی نہیں۔ سندھ حکومت نے جسے مکمل لاک ڈائون قرار دیا ہے اس میں بھی ضروری اشیاء لینے کے لیے باہر نکلنے اور دوائوں کی خریداری یا اسپتال جانے کی اجازت ہوگی۔ وفاقی حکومت بھی روزمرہ کام کرنے والوں کو لاک ڈائون کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت نے تقریباً مکمل لاک ڈائون پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی ملک گیر لاک ڈائون کا مطالبہ کیا ہے اور دونوں پارٹیوں نے کہا ہے بھیانک نتائج کی ذمے دار پی ٹی آئی حکومت ہوگی۔ لاک ڈائون اور کورونا پر سیاست اس قدر زوردار ہے کہ ٹی وی ٹاک شو میں بھی صوبوں اور وفاق کے فیصلوں کا موازنہ ہو رہا ہے اور ایک دوسرے کو صورتحال خراب ہونے کا ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹی وی اینکرز کا حال یہ ہے کہ وہ بھی گویا شکار کی تلاش میں ہیں۔ کہیں پی ٹی آئی کا بیانیہ چل رہا ہے اور کہیں مخالفین کا…جس قسم کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں اور جیسا اضافہ پاکستان میں مریضوں میں ہو رہا ہے اس کی روشنی میں جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نظر نہیں آرہے۔ لاک ڈائون کیا جائے یا نہیں اس سے قطع نظر جو سہولتیں عوام کو ملنی چاہییں تھیں ان کی جانب توجہ کیوں نہیں دی جا رہی۔ مثال کے طور پر کورونا کی تباہ کاری کا اعلان تو سرکاری اور غیر سرکاری طور پر خوب ہو رہا ہے لیکن اس کا ٹیسٹ مفت میں کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا کہ آغا خان اسپتال، لیاقت نیشنل اور ضیا الدین اسپتال کو کورونا ٹیسٹ مفت میں کرنے کا پابند کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نکلنے کے بجائے آغا خان اسپتال نے ٹیسٹ ہی بند کردیے۔ بہرحال لاک ڈائون پر سیاست بھی جاری ہے اور لاک ڈائون کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں ہی غریب کی خاطر فیصلہ کر رہے ہیں۔ وفاق کو چاروں وزرائے اعلیٰ کو جمع کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے زیادہ ذمے داری وزیراعظم کی ہے۔ انہیں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو جمع کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنا چاہیے پھر کوئی متفقہ لائحہ عمل دینا چاہیے۔ لاک ڈائون سیاست سے بالاتر ہو کر تمام حکمران خود بھی کچھ جھک جائیں۔ ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے انتخابات کا انتظار کریں۔ جہاں تک غریب کی فکر کا تعلق ہے تو ان دونوں فریقوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جب حالات اچھے تھے تو ان حکمرانوں نے غریب کے لیے کیا اقدامات کیے تھے۔ وزیراعظم خصوصی طور پر بتائیں کہ ڈالر کو 108 سے 170 تک پہنچاتے وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ غریب اس سے متاثر ہوگا۔ پیٹرولیم قیمتیں بار بار بڑھانے، بجلی گیس کے نرخ بڑھانے کے نتائج سے وہ واقف نہیں تھے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک اسلامی ضروری ہے لیکن یہاں فلاحی ریاست قائم نہیں، بلکہ حکمرانوں میں اس کا تصور بھی نہیں۔ غریب کا جتنا خیال عمران خان کو ہے اس سے کہیں زیادہ کا دعویٰ سندھ حکومت کر رہی ہے۔ اس نے تو بہت سے اعلانات بھی ایسے کیے ہیں جن میں راشن فراہم کرنا اور مزدوروں کو رقم فراہم کرنا وغیرہ شامل ہے لیکن اس نے اس کے لیے بہت بڑی رقم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اور اس رقم کے لیے اس کی نظریں وفاق پر ہیں۔ وفاق کی نظریں آئی ایم ایف اور عالمی اداروں پر ہیں۔ وزیراعظم کو غریب کا خیال ضرور ہے لیکن ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافہ اداروں کی بے دریغ بندش، پاکستان اسٹیل کی مسلسل بندش اور دیگر اقدامات سے غریب ہی متاثر ہوا ہے۔ اب بھی زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ لاک ڈائون کیا جائے یا نہیں۔ عوام کو بچانے کے لیے کیا اقدام کیا جائے اس پر تمام حکومتوں کو ایک جگہ بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب 18 ویں ترمیم اور صوبائی اور وفاقی معاملہ کہہ کر اس مسئلے کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ جب وبا بین الاقوامی بلکہ عالمگیر بن چکی ہے تو فیصلے الگ الگ کیوں کیے جا رہے ہیں۔
۔