عمر بن عبدالعزیزؒکا خطبۂ خلافت

1024

عبدالرشید عراقی

خلیفہ مقرر ہونے کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا، جس کا خلاصہ یہ ہے:
لوگو! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی خواہش کے بغیر مجھے خلافت کی ذمے داریوں میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمھاری گردن میں ہے، میں خود اتارے دیتا ہوں۔ تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرلو۔
اس خطبے کو سن کر لوگوں نے بلند آواز میں کہا: ’’ہم نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے، اور ہم سب آپ سے راضی ہیں، آپ خدا کا نام لے کر کام شروع کیجیے‘‘۔
جب آپ کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب کسی شخص کو ان کی خلافت سے اختلاف نہیں ہے تو اس وقت آپ نے اس بارِ عظیم کو قبول کیا اور مسلمانوں کے سامنے تقریر کی۔ جس میں تقویٰ، فکر آخرت کی تلقین اور خلیفۂ اسلام کی اصل حقیقت واضح کی۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا:
’’لوگو! تمھارے نبی کے بعد دوسرا نبی آنے والا نہیں ہے اور اللہ نے اس پر جو کتاب اْتاری ہے، اس کے بعد دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حلال کردی ہے وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اور جو چیز حرام کر دی ہے، وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ میں (اپنی جانب سے) کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف (احکام الٰہی کو) نافذ کرنے والا ہوں۔ خود اپنی طرف سے کوئی نئی بات کرنے والا نہیں ہوں بلکہ محض پیرو ہوں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔ میں تم میں سے کوئی ممتاز آدمی نہیں ہوں بلکہ معمولی فرد ہوں، البتہ تمھارے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔
لوگو! جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے، اس کی اطاعت واجب ہے، اور جو شخص اس کی نافرمانی کرے اس کی فرماں برداری جائز نہیں۔ جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں، میری اطاعت کرو۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں، تو میری فرماں برداری تم پر فرض نہیں ہے۔
لوگو! اللہ تعالیٰ کے خوف وتقویٰ کو لازم پکڑو، کیوںکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہر چیز کا بدل ہے مگر اس کا کوئی بدل نہیں۔
لوگو! مجھ سے پہلے بعض حکام کو خوش رکھنا تم اس لیے ضروری سمجھتے تھے تاکہ اس طرح تم ان کے ظلم سے محفوظ رہ سکو۔
لوگو! میں مال ودولت کو تم سے بچا بچا کر نہیں رکھوں گا، بلکہ جہاں مجھے حکم دیا گیا وہاں صرف کروں گا۔ سن رکھو! خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں ہے۔
اس کے بعد آپ منبر سے نیچے اْتر آئے اور لوگوں کو چلے جانے کا حکم دیا‘‘۔ (تاریخ ابن اثیر :ج5، ص16، سیرت ابن عبدالحکم، ص38-39 )
دوسرا خطبہ: عمر بن عبدالعزیزؒ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو دوسرے علاقوں سے کئی لوگ اپنی اپنی ضرورتوں کے لیے دارالخلافہ میں آئے ہوئے تھے۔ آپ نے ان تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے درج ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
لوگو! اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے جاؤ، کیوںکہ جب تم میرے پاس ہوتے ہو تو میں بھول جاتا ہوں، اور جب تم اپنی اپنی جگہ پر ہوتو مجھے خوب یاد رہتے ہو۔
دیکھو! میں نے کچھ لوگوں کو تم پر حاکم مقررکیا ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ تم میں سے بہتر آدمی ہیں۔ ہاں، یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت سوں سے اچھے ہیں۔ اگر کسی شخص پر اس کا حاکم ظلم ڈھاتا ہے تو میں آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اسے میری طرف سے اس بات کی اجازت نہیں ہے (اطلاع ملنے پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی)۔ اور جس پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوا (جو یونہی یہاں آیا ہوا ہے) اسے اپنی جگہ واپس جانا چاہیے، آئندہ میں اسے یہاں نہ دیکھوں۔
دیکھو! میں نے اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے اس مال کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ اب اگر تم کو دینے میں بھی بخل کروں تو پھر میں پرلے درجے کا کنجوس ہوں گا۔ اگر میں کسی سنت کو بلند نہ کرسکوں یا حق وانصاف کی راہ نہ چل سکوں تو میں ایک گھڑی بھی زندہ رہنا نہیں چاہوں گا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو ان کے پیش نظر یہ تھا کہ اْموی حکومت کو خلافت راشدہ میں بدل دینا چاہیے۔ وہ چاہتے تھے کہ نظام خلافت میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا جائے۔ ان کے پیش نظریہ بھی تھا کہ جب وہ اس سلسلے میں عملی قدم اٹھائیں گے تو ان کی مخالفت میں ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ لیکن آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ نظام خلافت میں ضرور تبدیلی لاکر اسے اصل پر واپس لوٹائیں گے۔ چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دو ضروری کام کرنے کا عزم کیا : 1۔غصب شدہ مال و جائیداد کی واپسی، اور 2۔باغ فدک کا معاملہ۔
شاہی خاندان اور امرا کو دیے ہوئے سابقہ حکام کے ناجائز تحائف، بیت المال سے عہدے داران کے ذاتی مصارف، عوام پر ظالمانہ ٹیکس، غیرمسلموں پر ٹیکس کی ظالمانہ شرح، ان سب کو سیّدنا عمر نے اصل حیثیت پر لوٹایا۔